تبصرہ: منیر فراز
مَیں عموماً کوئی اچھی فلم، افسانے،ناول یا آرٹ کا کوئی شہ پارہ "Watch later” (اُردو اصطلاح فوراً ذہن میں نہیں آئی) کے خانے میں رکھ دیتا ہوں۔ پھر کبھی طبیعت مایل ہو، تو اسے تسلی سے دیکھ لیتا ہوں، پڑھ لیتا ہوں۔ اس خانے میں ’’سگرید اُندسیت‘‘ کا ناول ’’ینّی‘‘ رکھا ہوا تھا، جسے گذشتہ ہفتے پڑھا۔
یہ ناول ناروے کی نوبل انعام یافتہ مصنفہ ’’سگرید اُندسیت‘‘ کے قلم کا شاہکار ہے، جسے فیس بُک گروپ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ کی معروف مترجم شگفتہ شاہ نے نارویجین زبان سے براہِ راست اُردو قالب میں ڈھالا۔
ناول کی کہانی سرِ دست میرا موضوع نہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ کوئی عام روایتی قسم کی کہانی ہے اور اس میں چند کرداروں نے کسی عہد کے سماج کی تصویر کشی کی ہوگی۔ یہ کہانی ہر عہد کے جیتے جاگتے اہم کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں، مسایل اور اُن سے نبرد آزما ہونے کی داستان ہے، جو نہ صرف آج کے انسان…… بلکہ ہر معاشرے کی بشری زندگی کی عکاس ہے۔ چناں چہ آج کے قاری کے لیے بھی سنہ 1911ء میں لکھا گیا یہ ناول آج ہی کی داستان معلوم ہوتا ہے۔
مثلاً ناول کا مرکزی کردار ’’ینّی‘‘ ایک آزاد خود مختار لڑکی ہے جو اپنے ڈھنگ سے زندگی گزارنے نکلتی ہے۔ دکھ اور مصایب کا سامنا، محبت کا تجربہ، اس کی اذیت اور پھر رقیب کی تکون، البتہ رقیب ہمارے معاشرے کا روایتی رقیب نہیں بلکہ ہیرو کے باپ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہاں یہ رقیب آپ کو نفرت سے بھرپور کردار نظر آئے گا، لیکن آپ جب اسے ناول کی رواں کہانی کے دوران میں پڑھیں گے، تو یہ کہانی کا اہم کردار محسوس ہوگا۔ یہی نہیں، بلکہ اسی کردار سے ینّی کے ناجایز تعلقات، پھر بچے کی پیدایش، بچے کی موت، ایک نئی محبت کا سامنا اور آخر میں پہلی محبت کا پھر سے سامنے آجانا…… ایسی دشوار اور الجھنوں میں اَٹی زندگی کے نتیجے میں ینّی کی خود کُشی…… اُوسلو اور روم کی گلیوں اور سڑکوں پر تخلیق کی گئی اس کہانی کا یہ خلاصہ ہے۔
ینّی نے اپنی زندگی کے راستوں کا انتخاب خود کیا تھا۔ مصایب اور تکلیفوں سے خود لڑی تھی اور موت کا انتخاب بھی خود کیا تھا۔ اسی پلاٹ پر لکھے گئے اس ناول میں انسانی نفسیات، فطرت اور رویوں کی کامیاب عکاسی کی گئی ہے۔
مَیں نے شروع میں کہا کہ ناول کی کہانی سرِ دست میرا موضوع نہیں، لیکن ایک پیراگراف اس لیے لکھ دیا کہ آپ کے ذہن میں ناول کا ایک خاکہ ضرور قایم ہو جائے۔ میرا موضوع ناول کا ترجمہ ہے جسے ایک غیر نارویجین قلم کارہ شگفتہ شاہ نے نارویجین زبان سے براہِ راست اپنی، یعنی اُردو زبان میں منتقل کیا ہے۔ یوں یہ دو مختلف زبانوں سے مکمل ہم آہنگ ہونے کا عمل ہے۔
ادبی دستاویزات کو کسی دوسری زبان کے ادبی رنگ میں ڈھالنا ایک تخلیق کے مقابلہ میں دوہری تخلیق کا عمل ہے۔ آپ ہر دو زبانوں کے کلاسک اذہان، محاورہ اور زبان سے مکمل آشنا ہوئے بغیر ایک سطر ترجمہ نہ کرسکیں گے۔ یہاں ساڑھے تین سو صفحات کا پورا ناول نارویجین سے اُردو زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ نارویجین زبان میں اس ناول کا ذایقہ یا اثرات کیسے ہوں گے…… لیکن اُردو زبان میں پڑھتے ہوئے مجھے کہیں بھی ترجمے کا گمان نہیں ہوا۔ میرے پڑھنے میں رکاوٹ نہیں آئی۔ مجھے کوئی سطر دوبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی…… اور ناول پڑھنے کے بعد ترجمے کے حوالے سے مجھے کوئی خدشہ نہیں ہوا۔
ترجمہ میں شگفتہ شاہ کا اُسلوب نمایاں ہے اور جس طرح اس ناول کو نارویجین ادب کا کلاسک ناول شمار کیا گیا ہے، ترجمہ میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہ کوئی سطحی ترجمہ بن کر نہ رہ جائے…… بلکہ ناول میں اُردو کا کلاسک رنگ بھی نظر آئے۔
میرے لیے ترجمہ نگار ہمیشہ اہم رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غیر ملکی ادب سے نمایندہ تحریروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ترجمے کی مشقت سے گزرتے ہیں اور کوئی ادب پارہ ادب کے قاری تک پہنچاتے ہیں۔
شگفتہ شاہ کا ترجمہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔ وہ گاہے گاہے اس بزم میں نئے ترجمہ کی صورت رونق افروز ہوتی ہیں۔ مَیں اس گروپ میں ایک طویل عرصہ سے انھیں پڑھ رہا ہوں۔ اُن کے ادبی مزاج سے آشنا ہوں۔ اُن کا انتخاب اور ترجمہ ہمیشہ سے معیاری رہا ہے۔ وہ اگر اس ناول کا ترجمہ نہ کرتیں، تو معیاری ادب پڑھنے والے مجھ جیسے کتنے ہی قاری ’’ینّی‘‘ جیسے اپنے عہد کے بڑے اور اہم ناول سے محروم رہ جاتے۔
یہ ناول اگر آپ تک پہنچے، یا آپ اسے حاصل کرلیں، تو اسے فوراً ہرگز نہ پڑھیں "Watch later” کے خانے میں رکھیں اور کسی فرصت کے اوقات میں تسلی سے پڑھیں ۔ اس ترجمہ کے لیے شگفتہ شاہ کا شکریہ!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔