سلیم اختر کے ناولٹ ’’ضبط کی دیوار‘‘ کا تنقیدی جایزہ

’’ضبط کی دیوار‘‘ (1995ء) سلیم اختر کا ایک ہلکا پھلکا اورسیدھے سادے پلاٹ کا ناولٹ ہے۔
اس ناولٹ میں مصنف نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے کالج کے لڑکوں کی نفسیات اور حرکات و سکنات کاتجزیہ کیا ہے۔ حاجی محمد اشرف الدین صدیقی جو اپنی شرافت، دین داری اور خداترسی کے لیے راولپنڈی بھر میں مشہور ہیں۔ اپنے محلے کی مسجد کی درستی اور لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا ارشد بھی اسی مذہبی فضا میں پرورش پاتا ہے اور اپنے ماں باپ کا فرماں بردار بھی ہے۔ وہ اس ناولٹ کا مرکزی کردار ہے۔
ارشد اپنے کالج کے ہم جماعت ساتھیوں سرفراز، اقبال، جمیل، کلیم،بشیر کا بھی چہیتا ہے۔ یہ لوگ کلاس میں بھی شریر ہیں۔ پروفیسر کو ستانا اور عجیب حماقتیں کرنا ان کا مشغلہ ہے۔ کلاس روم میں ستار بجاتے ہیں۔ ان کی جماعت ’’قوال پارٹی‘‘ کہلاتی ہے۔ وہ ارشد کو جنسی موضوع پر لکھی ہوئی ایک کتاب دیتے ہیں۔ ارشد اپنے گھریلو پس منظر کی وجہ سے بڑی الجھن کا شکارہوجاتا ہے…… بالآخر وہ یہ کتاب پڑھ لیتا ہے۔
؁ٍایک دن یہ سب دوست مل کر طوایف کے یہاں جاتے ہیں۔ ارشد کے علاوہ باقی سب ’’لڑکوں سے مرد‘‘ بن جاتے ہیں۔ طوایف اُسے شریف اور معصوم سمجھ کر اس کے ساتھ مذاق کرتی ہے۔ ارشد اسے اپنی ہتک اور ناکامی تصور کرتا ہے۔ اس کے دوسرے احباب اس واقعے کے بعد بھی وہا ں جاتے ہیں۔ وہ سرفراز سے ارشد کے بارے میں کئی بار پوچھتی ہے۔ لہٰذا سرفراز، ارشد کو مجبور کرکے اس کے یہاں لے جاتا ہے۔ وہ ارشد سے اس کے اور خاندان کے بارے میں پوچھتی ہے: ’’وہ اُٹھ کر اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ ارشد نے منھ اٹھا کر اُسے دیکھا۔ عورت کا جسم قریب سے خاصا بے ڈول اور ڈھلکا ہوا تھا۔ اُس نے سگریٹ پھینک دیا، جو فرش پر سانپ کی بل کھاتی ایسی دھوئیں کی لکیر میں تبدیل ہو رہاتھا۔ اس کے جسم سے عجیب سی بو خارج ہو رہی تھی۔ آنکھیں سکڑ رہی تھیں اور چمک کی جگہ ان میں اب کیچڑ اور گدلاہٹ آرہی تھی۔ وہ حیرت زدہ منھ اُٹھائے اُسے دیکھ رہا تھا کہ وہ اس پر جھکی، اس نے منہ سے نکلتی سانس کو نمی اور بو کو چہرے پر محسوس کیا۔ اس نے کرسی پر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی کہ معاً دونوں ہاتھوں کے دباؤ نے اُسے اُٹھنے نہ دیا۔ وہ اب قابو پا کر بول رہی تھی: ’وہ بھی تم ایسا ہی تھا، وہ بھی تم ایسا ہی تھا، میرے چاند میرے بچے!‘ ان سکڑی آنکھوں کی گدلاہٹ پانی میں تبدیل ہوئی اور آنسو نکل کر ارشد کے گالوں پر گرے۔ وہ اب گھبرا چکا تھا اور خود کو چھڑانے کی کوشش بھی کر رہا تھا…… مگر اَب وہ اس کی بانہوں کے شکنجے میں تھا۔ ’میرے بیٹے میرے چاند‘ وہ اُسے دیوانوں کی طرح لپٹائے تھی، نرم چھاتیوں میں دبی ناک سے دم گھٹتا محسوس ہو رہاتھا۔ اس کے جسم کی بو، پسینے کی بو، تمباکو اور چرس کی بو، اُسے متلی سی بھر رہی تھی، مگدروں ایسے بھاری بھاری بازو اُسے پیسے جا رہے تھے۔ ’وہ بھی تم ایسا ہی تھا میرا اکبر…… وہ اگر مجھ سے نہ بھاگتا، تو آج میں بھی اُسے کالج میں پڑھاتی ، میں اُسے بابو بناتی۔‘‘
ارشد، طوایف کو لات مار کر وہاں سے بھاگ آتا ہے۔
اس سیدھے سادھے پلاٹ کے ناولٹ میں ناولٹ نگار نے کہنے کو تو نوجوان لڑکوں کے جنسی تجربات کو پیش کیا ہے، لیکن طوایف کا کردار کسی قدر پیچیدگی اختیار کر جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جسم فروش عورت کے لیے کوئی معنویت رکھتے ہیں؟ سماج کا ایک عام مشاہدہ آج بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کی عورتوں کا سماج کے افراد سے اگر کوئی رشتہ قایم ہوتا، تو صرف جسم اور پیسے تک محدود ہوتا ہے…… لیکن سلیم اختر نے اس ناولٹ میں ایک طوایف کے ممتا کے جذبے کو زندہ کیا ہے۔
احمد ندیم قاسمی اس ناولٹ کا جایزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ارشد کا اسے لات مار کر بھاگ جانا قاری کو بے حد کھلتا ہے۔ وہ ساری ہم دردیاں جو قاری کو ارشد کے ساتھ تھیں، طوایف کے حصے میں آجاتی ہیں۔ کیوں کہ ہم سب کی ہم دردیاں ماؤں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ جب ارشد کا دھکا کھاتی ہے اور کرسی سے ٹکرا کر فرش پر گر پڑتی ہے، تو کنڈی کھول کر بگٹٹ بھاگ جانے والے ارشد سے پکار کر کہنے کو جی چاہتا ہے کہ میاں! بیٹے، ماؤں سے بھاگا نہیں کرتے…… مگر مشکل یہ ہے کہ ارشد تو محض اور محض اپنی جنس کا اسیر ہو کر آیا تھا اور جس آزمایش میں وہ پورا اترنا چاہتا تھا، اس کا موقع ہمیشہ کے لیے اس سے چھن گیا تھا۔ اس کے طرز ِ عمل پر دکھ کر سکتے ہیں، مگر اُسے روک نہیں سکتے کہ اُسے بھاگ ہی جانا چاہیے تھا۔‘‘
احمد ندیم قاسمی اس ناولٹ کو طویل مختصر افسانہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے بقول اس میں تاثر کی وحدانیت پائی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ممکن ہے ’ضبط کی دیوار‘ کو سلیم اختر کا ناولٹ کہا جائے، مگر میں اسے طویل مختصر افسانہ ہی کہوں گا۔ مختصر افسانے کے تمام لوازم اس طویل مختصر افسانے میں موجود ہیں۔ ناولٹ کا تعلق ناول کے خاندان سے ہے اور ناول میں جو واقعاتی اور کرداری پھیلاو ہوتا ہے، اس سے ناولٹ محروم نہیں ہوتا۔ ناولٹ میں یہ پھیلاو کچھ سمٹ جاتا ہے، مگر ناولٹ میں بھی تاثر وہی ہمہ گیری اور ہمہ جہتی کا ہوتا ہے۔ ’ضبط کی دیوار‘ نوجوان طلبہ کی زندگی کے صرف ایک واقعے پر مرکوز ہے۔ افسانہ نگار نے ’ضبط کی دیوار‘ کے قاری کو کہیں اِدھر اُدھر ایک لمحے کے لیے بھی بھٹکنے نہیں دیا۔ یہی مختصر افسانہ نگاری کا فن ہے…… اور اسی لیے ’ضبط کی دیوار‘ کو مَیں ایک طویل مختصر افسانہ قرار دیتا ہوں۔‘‘
’’ضبط کی دیوار‘‘طویل مختصر افسانے سے زیادہ ناولٹ سے قریب اس لیے بھی ہے کہ اس میں کالج کے لڑکوں کی زندگی کے ایک خاص واقعے کی نشان دہی کے علاوہ خود مرکزی کردار ارشد کا خاندانی پس منظر بھی پیش کیا گیا ہے، جو افسانے کی صورت میں یہاں غیر ضروری ہوتا ہے اور دوسری طرف طوا یف کا کردار بھی پیچیدہ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے پیشے سے قطعِ نظر ارشد کو دیکھ کر اس میں اپنے بیٹے کو تلاش کرنے لگتی ہے…… جو اس سے کھو گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر اس میں ایک ناولٹ کا تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر چوں کہ انسانی نفسیات پر بہت گہری نظر اور دسترس رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے اس ناولٹ کی صورت میں ایک بڑا اسلوبیاتی تجربہ کیا ہے…… جو اس مقالے میں اپنی جگہ انتخاب کا درجہ بھی رکھتا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے