کیا ضلع سوات واقعی تجربہ گاہ ہے؟

سوات کی تاریخی حیثیت سے ساری دنیا واقف ہے۔ یہ علاقہ اگر ایک طرف اپنے بے پناہ حسن کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، تو دوسری طرف دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں بھی اس کا شہرہ ہے۔ ایک وقت تھا جب اس علاقے میں دنیا بھر سے لوگ سکون حاصل کرنے کیلئے آتے تھے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ یہاں کے باسی خود بے سکونی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اب ایک بار پھر ایسا وقت آیا ہے کہ یہاں کے اپنے لوگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ قدرتی وسائل سے مالامال سوات اب ایک ایسی تجربہ گاہ ہے بن گیا ہے جس میں ہر قسم کا تجربہ چاہے جس کے بھی جی میں آئے، کرنے کے لئے یہاں باآسانی آدھمک سکتا ہے۔ صوفی محمد کی تحریک ہو، تحریک طالبان ہو یا "کوئی اور تجربہ”، سب یہاں کامیاب رہے۔ ان دنوں ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے کہ ضلع سوات کو کیسے تقسیم کیا جائے؟ مگر سوات کے عوام کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان تجربات میں ہمیشہ نقصان عوام کو اٹھانا پڑا ہے۔
حالیہ دنوں میں صوبائی حکومت ایک ایسا ایشو سامنے لائی ہے جس سے ضلع سوات کے عوام کی قوت کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی جانب سے اَپر سوات کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کیا گیا ہے، اس وقت سے سوات کے عوام تین حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک بحث چھڑ چکی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مخالفت اور حق میں دلیل کے بجائے گالم گلوچ اور بددعاؤں سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے کچھ سنجیدہ دوستوں نے اسے مینگورہ اور اَپر سوات کی جنگ بنا دیا ہے جبکہ بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ اہلیانِ مینگورہ اور سیدو شریف نے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ مگر کیا ان کو یہ پتا نہیں کہ یہاں کے لوگ تو پانی جیسی قدرتی نعمت کے حصول کیلئے بھی سڑکوں کا رُخ کرتے ہیں۔جن مسائل کا سامنا آپ لوگوں کو ہے، وہی مسائل ہمارے آنگن میں بھی موجود ہیں۔ تقسیم، مسائل کا حل نہیں۔

اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور خود سے سوال کریں کہ کبھی ہم نے اپنے ممبرانِ اسمبلی سے پوچھا ہے کہ ہم نے آپ کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا، آپ نے کیوں ہمارے مسائل حل نہیں کئے؟ ہماری غیرت کا یہ عالم ہے کہ اپنے اپنے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے بھی صاحبِ اقتدار لوگوں کے گھروں اور حجروں کے چکر کاٹتے ہیں۔ جب ہم اپنی حالت نہیں بدل سکتے، تو ایک الگ ضلع بنانے والے کیا اپنی حالت سدھاریں گے؟ہم تو ایک ایسی قوم ہیں جو پلاسٹک پائپ اور ٹرانس فارمر کی بنیاد پرلوگوں کو لیڈر بناتے ہیں۔

اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور خود سے سوال کریں کہ کبھی ہم نے اپنے ممبرانِ اسمبلی سے پوچھا ہے کہ ہم نے آپ کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا، آپ نے کیوں ہمارے مسائل حل نہیں کئے؟

اس تمام تر صورتحال میں کیاکسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ صرف خوازہ خیلہ اور مٹہ کو ہی کیوں ہیڈ کوارٹر بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں؟ اس سے اہلیانِ کوہستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس موقع پر کوہستان کے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے؟ کیا الگ ضلع بننے سے کوہستان ایشیا کا سوٹیزر لینڈ بن جائے گا؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہی ملے گا۔ اس سے سوات کے عوام کو کوئی خیر نہیں۔ صرف طاقتور لوگوں کے مفادات ہیں جن کو ہم عوام پورا کر رہے ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یک دم یہ تقسیم کا مسئلہ کس نے بنایا اور کس کے کہنے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ یک دم طالبان کی طرح یہ مسئلہ کیسے سامنے آیا، جس میں سوشل میڈیا کو خصوصی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے؟ آخر ہمارے کچھ ممبران اسمبلی کو کیوں الگ ضلع بنانے کا خیال آیا؟ یا کسی نے انہیں اس طرف مائل کیا ہے کہ عوام کا ذہن بنائیں کہ ضلع سوات کی دو حصوں میں تقسیم سے خوشحالی و ترقی آئے گی۔ حالاں کہ تمام پاکستانی عوام کو معلوم ہے کہ جب اقتدار کے آخری دن قریب آجاتے ہیں، تو حکومتیں اگلے الیکشن کی تیاریوں کیلئے ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دیتی ہیں یا سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ایسے اعلانات کرتی ہیں جس طرح پرویز خٹک صاحب نے کیا ہے۔ کیا یہ لوگوں کے احساسات سے کھیلنے کیلئے سیاسی حربہ تو استعمال نہیں کیا جا رہا؟ یہ سب کچھ پہلے کی طرح پسِ پردہ ہے، مگر ساری باتیں ایک نہ ایک دن سامنے ضرور آئیں گی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے لوگ اکثر اپنی ناکامیو ں کو چھپانے کیلئے اسی طرح کے حربے استعمال کرکے عوام کو مصروف رکھتے ہیں۔ اگر یہی ممبران عوامی مسائل کے حل کیلئے مخلص ہوتے، تو یقیناً سوات آج پاکستان کا ترقی یافتہ ضلع ہوتا۔
جب ریاستی دور میں ایک اکیلا بادشاہ کوہستان، شانگلہ، سوات اور بونیر پر مشتمل علاقے میں سڑکوں کا جال بچھا سکتا تھا، بنیادی مراکز صحت تعمیر کرسکتا تھا، تعلیمی ادارے تعمیر کرسکتا تھا، تو یہ لوگ کیوں ناکام ہیں؟ اب تو صرف سوات سے نو ممبرانِ اسمبلی مسائل کے حل کیلئے موجود ہیں، تو پھر کیوں یہاں کی سڑکیں تعمیر نہیں ہو رہیں؟ علاج معالجے کے مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے، تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث طلبہ کیوں تعلیم سے محروم ہورہے ہیں؟ امسال کتنے طلبہ داخلوں سے محروم رہ گئے ہیں؟ کیا اس پر کسی ایم پی اے یا ایم این اے نے کوئی عملی نوٹس لیا ہے؟اگر ہم دیکھ لیں کہ کالام کے لوگ کئی سالوں سے ان ممبران اسمبلی کی منتیں کررہے ہیں کہ ہمارا روڈ بنایا جائے، ہمیں بنیادی وسائل دئیے جائیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ سوات میں کون سا ممبرہے جس نے اہلیانِ کالام کی آواز بن کر احتجاجاً استعفا دیا ہو؟ ماسوائے اخباری بیانات کے۔ جی ٹی روڈ کی حالت دیکھ لیں، ائرپورٹ بند پڑا ہے، معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے، یقینا ان سوالات پر ہمارے معزز ممبران صرف سیاسی جوابات ہی دیں گے۔ اگر ممبر انِ اسمبلی خود اپنا احتساب کریں کہ ہم نے اس قوم کا حق ادا کیا ہے کہ نہیں، کیا الگ ضلع بننے سے یہ مسائل حل ہوجائیں گے؟ یہ حکومتوں کی نہیں ہمارے ممبرانِ اسمبلی کی ناکامی ہے جو اقتدار سے الگ ہونا ہی نہیں چاہتے۔ بس لوگوں کے احساسات سے کھیلتے ہیں۔جو لوگ آج ضلع بنانے کے حق اور مخالفت میں جرگے کررہے ہیں، خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہیں کہ کیا کبھی انہوں نے سوات کے مسائل کے حل کیلئے جرگہ کیا ہے؟ کبھی حکومت وقت کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے ہیں؟

جب ریاستی دور میں ایک اکیلا بادشاہ کوہستان، شانگلہ، سوات اور بونیر پر مشتمل علاقے میں سڑکوں کا جال بچھا سکتا تھا، بنیادی مراکز صحت تعمیر کرسکتا تھا، تعلیمی ادارے تعمیر کرسکتا تھا، تو یہ لوگ کیوں ناکام ہیں؟ اب تو صرف سوات سے نو ممبرانِ اسمبلی مسائل کے حل کیلئے موجود ہیں، تو پھر کیوں یہاں کی سڑکیں تعمیر نہیں ہو رہیں؟ علاج معالجے کے مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے، تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث طلبہ کیوں تعلیم سے محروم ہورہے ہیں؟

بلاگ لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں، بس جن لوگوں نے اس مسئلے کو جنگ کی شکل دے کر بے چینی پھیلائی ہے، ان پر واضح کرنا ہے کہ ہم اہلیانِ سوات ایسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں کہ اگر ہم اَپر سوات میں رہ جائیں یا لوئر سوات میں ان سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ بس صرف نام کی تبدیلی ہوگی۔ اگر آج سوات کے بیس لاکھ سے زیادہ عوام کو بنیادی حقوق نہیں مل رہے، تو دو یا تین حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد کیسے مل پائیں گے؟ اگر ہم ایک وجود رہیں اورمتحد ہوجائیں، تو یقینا ہماری حالت بدل سکتی ہے۔ اگر پھر بھی کوئی تقسیم کے حق میں ہے، تو برائے مہربانی ممبرانِ اسمبلی کے بجائے عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔ کچھ سیاسی لوگوں کے ٹاؤٹوں کو عوامی رائے کا نام دینے سے گریز کیا جائے۔ اگر عوام کی اکثریت الگ ہونا چاہتی ہے، تو پھر اس ’’کارِخیر‘‘ میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

…………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔