’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ نہیں، ادبی جریدہ تھا

تحریر: مبشر علی زیدی
سب رنگ کو محض ’’ڈائجسٹ‘‘ کہنا ناانصافی ہے۔ یہ ایک ادبی جریدہ تھا…… بلکہ اس کا معیار بہت سے ادبی جریدوں سے بہتر تھا۔ یہ بات میں نہایت ایمان داری سے کَہ رہا ہوں۔ ادبی جریدوں کے ایڈیٹر ادیبوں کی تحریروں کو مسترد نہیں کرتے۔ بیشتر تحریروں کو ایڈٹ نہیں کرتے۔ سب رنگ میں کرشن چندر جیسے افسانہ نگار کی کہانی کو مسترد کردیا جاتا تھا۔ منٹو تک کی کہانی کو ایڈٹ کیا جاتا تھا۔
سب رنگ کا یہ غیر معمولی معیار اس کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ نے طے کیا تھا، لیکن اس میں انھیں بہترین ادیبوں اور ایڈیٹرز کی خدمات بھی حاصل تھیں۔ انھوں نے اپنے دفتر کو ایسی محفل، ایسی چوپال میں بدل دیا تھا جہاں اعلا ترین فکشن کے پارکھ جمع ہوگئے تھے۔
سب رنگ کا آغاز 1970ء میں ہوا تھا اور آٹھ دس سال یہ باقاعدگی سے ہر ماہ آتا رہا…… لیکن جیسے جیسے معیار بلند تر ہوتا گیا، اشاعت کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ مَیں نے ہائی اسکول کے آخری دنوں میں جب ڈائجسٹ پڑھنا شروع کیے، تو سب رنگ کی اشاعت بے قاعدہ ہوچکی تھی۔ سال دو سال میں ایک شمارہ آتا تھا جو خاص نمبر کی طرح موٹا تازہ ہوتا تھا۔ اس کی ہر کہانی، ہر صفحہ، ہر تراشہ بار بار پڑھنے کے قابل ہوتا تھا۔ مَیں نے بعد میں ’’سرگزشت‘‘ میں کام کیا اور اس میں میری کہانیاں بھی چھپیں۔ سب رنگ میں چھپنے کا اعزاز نہیں ملا…… لیکن خوش قسمتی سے مجھے شکیل صاحب کی قربت ملی۔ کچھ عرصہ میں ان محفلوں میں شریک ہوا جو سب رنگ بند ہونے کے باوجود اسی دفتر میں اور بعد میں مختلف مقامات پر جاری رہیں۔ مَیں نے ایک کتاب کا مسودہ چھاپنے سے پہلے شکیل صاحب کو دیا، تاکہ وہ رائے دیں کہ مَیں اسے چھاپوں یا نہ چھاپوں؟ شکیل صاحب نے اس کے پروف ہی پڑھ ڈالے۔
شکیل صاحب سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب مَیں کالج میں پڑھتا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ وہ کھانے کے بعد قیلولہ کرتے تھے…… لیکن اس وقت تک شاید کھانا نہیں ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ صوفے پر اکڑوں بیٹھے تھے۔ مَیں نے سلام کے بعد عرض کیا کہ میرے پاس 70ء کی دہائی کے چھے سات شماروں کے سوا سب رنگ کے تمام شمارے ہیں۔ اگر وہ چھے سات بھی مل جائیں، تو پورا سیٹ بن جائے گا۔ شکیل صاحب نے پوچھا، کون سے شمارے ؟ میں نے کاغذ دکھایا۔ وہ دوسرے کمرے میں گئے اور وہ نایاب شمارے لاکر میرے حوالے کیے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ مَیں نے پیسے دینے چاہے، تو انھوں نے انکار کردیا۔
پرائمری میں ’’نونہال‘‘، ’’جگنو‘‘، ’’تعلیم و تربیت‘‘ اور لڑکپن میں ’’اشتیاق احمد‘‘، ’’مظہر کلیم‘‘، ’’ابن صفی‘‘ کے بعد اور گاڑھے ادب سے پہلے کی ایک منزل سب رنگ تھا۔ شکیل عادل زادہ تھے۔
اچھا فکشن (اور اچھی شاعری) پڑھنے والوں کو زندگی کے پُرمسرت لمحات عطا کرتے ہیں۔ شکیل صاحب اور ان کے سب رنگ نے ہمیں زندگی کے ان بہترین لمحات سے نوازا، ہمیں اچھے فکشن کی پہچان کروائی، ہمارے ذاتی کتب خانوں کو عمدہ ترین اثاثے فراہم کیے۔
مَیں نے اپنے پاس موجود سب رنگ کے شماروں کو ابھی تک اسکین نہیں کیا…… لیکن مختلف ویب سائٹس پر 42 شمارے ملے ہیں جو گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں شیئر کرنا چاہوں گا۔ ایک بار پھر افسوس کا اظہار کررہا ہوں کہ لوگ ’’ای بکس‘‘ کو بلاوجہ اشتہارات سے داغ دار کردیتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ کئی صفحات پڑھنے کے قابل نہیں رہتے۔ بہرحال پڑھنے والوں کو مفت میں خزانہ مل رہا ہے۔ کچھ مال خراب ہوگیا ہے، تو برداشت کیجیے گا۔
اگر آپ کو اب تک شکیل صاحب سے محبت نہیں ہوئی، تو سب رنگ کے ان شماروں کو پڑھنے کے بعد ہوجائے گی۔ مزید پڑھنا چاہیں، تو ہمارے دوست حسن رضا گوندل کی ترتیب دی ہوئی سب رنگ کہانیوں کے مجموعے خریدیں…… جنھیں بک کارنر جہلم نے سلیقے سے پانچ جلدوں میں شایع کیا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے