قارئین! مجید امجد، منیر نیازی اور میرے شہر ساہیوال کے رہایشی، میرے مادرِ علمی گورنمنٹ کالج ساہیوال سے پڑھے، ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو سلام‘‘ کرنے والے طارق عزیز کو آج ہمارا سلام…… جنہیں ہم سے بچھڑے ہوئے پورے دو سال گزر گئے۔
وہ تو بھلا ہو ’’جرنلسٹ اینڈ ٹریڈرز فورم‘‘ کا کہ وہ کسی کی یاد کا سلسلہ یوں جانے نہیں دیتے۔ اس فورم کے صدر فاروق آزاد، مال روڈ پر نقی مارکیٹ میں کبھی سال گرہ کا کیک کاٹ رہے ہوتے ہیں، تو کبھی کسی کے لیے قاری خالد محمود کے ساتھ مل کر دعائیہ تقریب کا ڈول ڈالتے ہیں۔
قارئین! طارق عزیز وہ سچے، کھرے اور محب وطن پاکستانی تھے جن کے والد نے 1936ء میں اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھنا شروع کردیا تھا……اور طارق عزیز بھی 28 اپریل 1936ء کو جالندھرکے پنجابی ارائیں خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں عبدالعزیزپاکستانی تھا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور 1947ء میں منٹگمری (اب ساہیوال) ہجرت کرگئے…… جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج ساہیوال سے گریجویشن کیا۔
طارق عزیز پاکستان ٹیلی وِژن کے میزبان، شاعر اور فلمی اداکار تھے…… جو پی ٹی وی کے کوئز شو ’’نیلام گھر‘‘ سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے…… جو پہلی بار 1974ء میں نشر ہوا ۔بعد میں اس کا نام بدل کر ’’طارق عزیز شو‘‘ اور بالآخر’’بزمِ طارق عزیز‘‘ رکھا گیا۔
طارق عزیز پاکستان میں ٹیلی وِژن پر نمودار ہونے والا پہلا چہرہ بھی تھے۔ 1997ء اور 1999ء کے درمیان پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ اُس الیکشن میں وہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے مقابلے میں 50 ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔
طارق عزیزنے 1961ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اورجب پاکستان ٹیلی وِژن (پی ٹی وی) نے نومبر 1964ء میں لاہور سے اپنی ابتدائی نشریات کا آغاز کیا، تو طارق اس پر نظر آنے والے پہلے شخص تھے۔ یوں پی ٹی وی کے پہلے مرد اناؤنسر بن گئے۔
اپنے کوئز شو ’’نیلام گھر‘‘، ’’طارق عزیز شو‘‘ اور ’’بزمِ طارق عزیز‘‘ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے تجارتی کامیابی حاصل کرنے والے پہلے ٹی وی میزبانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنے شوز میں ڈھیر سارے قابلِ ذکر دانش وروں، کھیلوں کے افراد اور مشہور شخصیات کے انٹرویوز کیے۔
طارق عزیز نے فلمی اداکار وحید مراد اور اداکارہ زیبا کے ساتھ پاکستانی فلموں ’’انسانیت‘‘ (1967ء)، ہار گیا انسان، قسم وقت کی (1969ء) سمیت تقریباً 54 فلموں میں کام کیا۔
طارق عزیز کئی ٹیلی وِژن پروگراموں اور مارننگ شوز میں نظر آئے۔ انہوں نے خیراتی مقاصد کے لیے ’’ٹیلی تھون‘‘ کا بھی اہتمام کیا۔ ان کی فلموں میں سے ایک ’’سال گرہ‘‘ (1969ء) بھی تھی…… جو ایک انتہائی کامیاب میوزیکل فلم تھی اور اس فلم نے دو ’’نگار ایوارڈ‘‘ جیتے۔
طارق عزیز اپنے کالج کے زمانے میں طلبہ کی سیاست میں سرگرم تھے۔ 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ اُس وقت طارق عزیز کو ’’فائر برانڈ سوشلسٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔
1996ء میں طارق عزیز نے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی اور لاہور سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھے، جن پر 1997ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت پر حملے کا الزام عاید کیا گیا تھا…… مگر ایک پروگرام میں وہ اس بات کی حلف اٹھا چکے ہیں کہ انہیں آخر دم تک اس حملے کا کوئی علم نہیں تھا…… مگر بعد میں وہ ان کرداروں سے واقف ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے۔ پر
ویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی۔ میاں منیر ان کے بہترین دوست تھے۔ وقت کیس اتھ طارق عزیز سیاست سے دل برداشتہ ہوگئے اور پھر واپس اپنی دنیا میں لوٹ آئے۔ وہ ایک انسان دوست، کتاب سے محبت کرنے والے اور شاعری کرنے والے بے مثال انسان تھے۔
طارق عزیز کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تھا جو فوت ہوگیا تھا۔ اسکے بعد اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔اسے بھی اللہ کی رضا سمجھ کر شکر ادا کرتے رہے۔ اپنی تمام دولت پاکستان کے غریب عوام کے نام کی۔ یقینا وہ ہم سب کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔
طارق عزیز پنجابی زبان کے سب سے بڑے محافظ، شاعر اور ادیب تھے۔ ان کی کتابوں میں ’’ہمزاد دا دکھ‘‘ ،’’اقبال شناسی‘‘، ’’ہزار داستان‘‘ (اخبار کے کالموں کا مجموعہ) اور ’’فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک‘‘ شامل ہیں…… جنہیں پڑھ کر مزا آتا ہے۔
ان کے ساتھ جب کبھی ملاقات ہوتی، تو ان سے گفتگو کرکے طمانیت محسوس ہوتی تھی۔ ان کے اندر پاکستان اور پاکستانیوں کا جتنا درد مَیں نے محسوس کیا،شاید ہی کسی اور میں دیکھا ہو۔ وہ نہ صرف اپنے شہر، اپنے دوستوں سے محبت کرنے والے تھے…… بلکہ انہیں اپنے کالج کا زمانہ بہت یاد آتا تھا۔ ساہیوال کے اسٹیڈیم چوک میں بیٹھ کر گپیں لگانا بھی انہیں ہمیشہ یاد رہا۔
انتقال 17 جون 2020ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں ہوا۔ 16 جون 2020ء کی رات طبیعت خراب ہونے کے بعد ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، مگر جاں بر نہ ہوسکے اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔ انہیں گارڈن بلاک گارڈن ٹاؤن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اللہ تعالا انہیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
صدرِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں قوم کے لیے خدمات کے عوض ’’پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ 9ویں پی ٹی وی ایوارڈز میں انہوں نے 1998ء میں بہترین میزبان کا ایوارڈ جیتا۔ ان کا شعر جو اکثر دوستوں کی محفل میں سنایا کرتے ، ملاحظہ ہو:
ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو لوگ مرنا چھوڑ دیں
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔