قرآنِ کریم روزِ قیامت تک کے لیے لوگوں سے مخاطب ہے: ’’اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول کے بعد اُن کی ازواج (نبی اکرم ؐکی بیویوں) میں سے کسی سے نکاح کرو۔ (سورۃ الاحزاب 53)
یعنی ازواجِ مطہرات تمام ایمان والوں کے لیے ماں (ام المؤمنین) کا درجہ رکھتی ہیں۔ ازواجِ مطہرات کے متعلق اللہ تعالا اپنے پاک کلام (سورۃ الاحزاب 32) میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اے نبی کی بیویوں! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ تم بلند مقام کی حامل ہو۔‘‘
قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چند نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کنواری تھیں۔ باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب سے پہلا نکاح 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ حضرت خدیجہؓ کی عمر نکاح کے وقت 40 سال تھی۔ نیز وہ نبی اکرمؐ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں اور ان کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 50 سال کی ہوئی، تو حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرمؐ  نے اپنی پوری جوانی (25 سے 50 سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہؓ کے ساتھ گزاری۔ دوسری شادی بھی آپؐ نے ایک بیوہ عورت سے کی۔ اس طرح پوری مکی زندگی میں آپ کے نکاح میں صرف ایک ہی بیوہ عورت رہی۔ 55 سے 60 سال کی عمر میں آپؐ نے چندنکاح کیے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لیے نہیں کیے کہ شہوت 55 سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ اگر شہوت پوری کرنے کے لیے آپؐ نکاح فرماتے، تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا، مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے…… بلکہ چند سیاسی و دینی و اجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپؐ نے یہ نکاح کیے۔
پہلا سبب:۔ جنگوں میں بعض صحابۂ کرام شہید ہوئے یا کفارِ مکہ نے مسلمان عورتوں کو طلاق دے دی، تو نبی اکرمؐ نے اُن بیوہ یا مطلقہ عورتوں پر شفقت و کرم کا معاملہ فرمایا اور ان سے نکاح کرلیا، تاکہ ان بیوہ یا مطلقہ عورتوں کو کسی حد تک دلی تسکین مل سکے۔ نیز انسانیت کو بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
دوسرا سبب:۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی حضرت عائشہؓ اور خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق کی بیٹی حضرت حفصہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نکاح کیے۔ خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ اور خلیفۂ رابع حضرت علیؓ کے ساتھ حضورِ اکرمؐ نے اپنی صاحب زادیوں کا نکاح کیا۔ غرض یہ کہ نکاح کے ذریعہ آپ کی وفات کے بعد آنے والے چاروں خلفا کے ساتھ داماد یا سسر کا رشتہ قایم ہوگیا…… جس سے صحابہ کے درمیان تعلق مضبوط اور مستحکم ہوا اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔
تیسرا سبب:۔ نبی اکرمؐ نے سارے نکاح بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کیے…… لیکن صرف ایک نکاح کنواری لڑکی حضرت عائشہؓ سے کیا۔ انہوں نے نبیؐ کی صحبت میں رہ کر مسایل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کی۔ عربی میں محاورہ ہے: ’’اَلْعِلْمُ فِی الصِّغَرِ کَالنَّقشِ عَلَی الْحَجَرِ‘‘ چھوٹی عمر میں علم حاصل کرنا پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے۔ تقریباً 12210 احادیث حضرت عائشہؓ سے مروی ہیں۔ نبی اکرمؐ کے انتقال کے 42 سال بعد حضرت عائشہؓ کا انتقال ہوا…… یعنی نبیؐ کی وفات کے بعد 42 سال تک علومِ نبوت کو امتِ محمدیہؐ تک پہنچاتی رہیں۔
چوتھا سبب:۔ یہود و نصارا میں سے جو حضرات مسلمان ہوئے، ان کے ساتھ آپؐ نے شفقت و رحمت کا معاملہ فرمایا۔ چناں چہ حضرت صفیہؓ مسلمان ہوئیں، تو آپؐ نے ان کو آزاد کیا…… اور ان کی رضامندی پر آپؐ نے ان سے شادی کی۔ اسی طرح حضرت ماریہؓ جو عیسائی تھیں…… ایمان لائیں، تو آپؐ نے ان کو عزت دے کر انہیں اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کے بیٹے ابراہیمؓ، حضرت ماریہؓ سے ہی پیدا ہوئے۔
پانچواں سبب:۔ حضرت جویریہؓ کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کرلیا۔ نیز جب لشکر نے یہ سنا کہ سارے قیدی نبی اکرمؐ کے رشتہ دار بن گئے، تو صحابۂ کرام نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح نبی اکرمؐ کی اس تدبیر نے 100سے زیادہ انسانوں کو لونڈی اور غلام بنائے جانے سے بچالیا۔ یاد رکھیں کہ اسلام نے ہی عربوں میں زمانۂ جاہلیت سے جاری انسانوں کو غلام اور لونڈی بنانے کا رواج رفتہ رفتہ ختم کیا ہے۔ غرض نبی اکرمؐ نے مرد ہونے کی حیثیت سے صرف ایک نکاح کیا…… اور وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ پوری جوانی انہی بیوہ عورت کے ساتھ گزار دی۔ البتہ باقی نکاح، رسول ہونے کی حیثیت سے کیے۔
نبی اکرمؐ کی ازواج مطہرات کا مختصر تعارف:
٭امّ المؤمنین حضرت خدیجہؓ:۔ یہ نبی اکرم ؐکی پہلی بیوی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دیانت، کمال اور برکت کو دیکھ کر انہوں نے خود شادی کی درخواست کی تھی۔ نکاح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چاروں بیٹیاں (زینبؓ، رقیہؓ، امِ کلثومؓ اور فاطمہؓ) اور ابراہیمؓ کے علاوہ دونوں بیٹے (قاسمؓ اور عبداللہؓ) حضرت خدیجہؓ ہی سے پیدا ہوئے۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 50 سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ کا انتقال نبوت کے دسویں سال ہوا۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر 65 سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ کی سچائی اور غم گساری کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔
٭ امّ المؤمنین حضرت سودہؓ:۔ یہ اپنے شوہر (سکران بن عمرو) کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں۔ ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئی تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال ان سے نکاح کرلیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 50 سال اور حضرت سودہؓ کی عمر 55 سال تھی۔ یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد تقریباً 3، 4 سال تک صرف حضرت سودہؓ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہیں۔ کیوں کہ حضرت عائشہؓ کی رخصتی نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً 55 سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔ حضرت سودہؓ کا انتقال 54 ہجری میں ہوا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت عائشہؓ:۔ یہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیٹی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی آرزو تھی کہ میری بیٹی نبی کے گھر میں ہو۔ چناں چہ حضرت عائشہؓ کا نکاح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکہ ہی میں ہوگیا تھا…… مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر (مدینہ منورہ) میں 2 ہجری کو آئیں…… یعنی 3، 4 سال بعد رخصتی ہوئی۔ اُس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 55 سال تھی۔ جیسے باپ نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دی تھیں…… بیٹی بھی ایسی ہی عالمہ وفاضلہ ہوئیں کہ بڑے بڑے صحابۂ کرام اُن سے مسایل دریافت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بعد سب سے زیادہ احادیث حضرت عائشہؓ سے ہی مروی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صرف حضرت عائشہؓ ہی کنواری بیوی تھیں…… باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عائشہؓ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی اور اسی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدفون ہیں۔ حضرت عائشہؓ کا 57 یا 58 ہجری میں انتقال ہوا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت حفصہؓ بنت عمر:۔ یہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے شوہر غزوۂ احد میں زخمی ہوگئے تھے اور ان ہی زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے تھے۔ اس طرح حضرت حفصہؓ بیوہ ہوگئیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے 3 ہجری میں نکاح فرمالیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 56 سال تھی۔ حضرت حفصہؓ بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ حضرت حفصہؓ کا انتقال 41 یا 45 ہجری میں ہوا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت زینبؓ بنت خزیمہ:۔ ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے، پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا۔ یہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی چچیرے بھائی تھے۔ تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحشؓ سے ہوا تھا۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ وہ جنگِ اُحد میں شہید ہوئے۔ نبی اکرمؐ نے حضرت زینبؓ کے تیسرے شوہر کے انتقال کے بعد ان سے 3 ہجری میں نکاح کرلیا۔ اس وقت آپؐ کی عمر 56 سال کی تھی۔ وہ نکاح کے بعد صرف تین ماہ زندہ رہیں۔ یہ غریبوں کی اتنی مدد اور پرورش کیا کرتی تھیں کہ ان کا لقب امّ المساکین (مسکینوں کی ماں) پڑگیا تھا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت ام سلمہؓ:۔ ان کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہؓ سے ہوا تھا، جو نبی اکرمؐ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے شوہر حضرت ابو سلمہؓ کی جنگِ اُحد کے زخموں سے وفات ہوگئی تھی۔ چار بچے یتیم چھوڑے۔ جب بظاہر کوئی دنیاوی سہارا نہ رہا، تو نبی اکرمؐ نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھاکر ان سے 3 ہجری میں نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت آپؐ کی عمر 56 سال اور حضرت امِ سلمہؓ کی عمر 65 سال تھی۔ 58 یا 61 ہجری میں حضرت ام سلمہؓ کا انتقال ہوگیا۔ امہات المومنین میں سب سے آخر میں انہیں کا انتقال ہوا۔ غرض یہ کہ حضرت حفصہؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کے شوہر غزوۂ احد (3 ہجری) میں شہید ہوئے یا زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے، تو آپؐ نے ان بیوہ عورتوں سے ان کے لیے دنیاوی سہارے کے طور پر نکاح فرمالیا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحشؓ:۔ یہ نبی اکرمؐ کی سگی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ نبی کریمؐ نے ان کا نکاح کوشش کرکے اپنے منھ بولے بیٹے (آزاد کردہ غلام) حضرت زیدؓ سے کرادیا تھا…… لیکن شوہر کی حضرت زینبؓ کے ساتھ نہیں بنی اور بیوی کو چھوڑ دیا۔ اگرچہ نبی اکرمؐ نے زیدؓ کو بہت سمجھایا…… مگر دونوں کا ملاپ نہیں ہوسکا۔ حضرت زینبؓ کی اس مصیبت کا بدلہ اللہ نے یہ دیا کہ نبی کریمؐ کے ساتھ اُن کا نکاح 5 ہجری میں ہوگیا، یعنی اُس وقت آپؐ کی عمر 58 سال تھی۔ زمانۂ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھ کراس کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا جایز نہیں سمجھتے تھے۔ نبی اکرمؐ نے حضرت زیدؓ کی مطلقہ عورت سے نکاح کرکے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ منھ بولے بیٹے کا حکم حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے، یعنی منھ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ باپ اپنے حقیقی بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے کبھی شادی نہیں کرسکتا۔ حضرت زینبؓ کا انتقال 20 ہجری میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں ہوا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت جویریہؓ:۔ لڑائی میں پکڑی گئی تھیں اور حضرت ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں آئیں۔ حضرت ثابت بن قیسؓ 20 سال کے نوجوان تھے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے حضرت جویریہؓ سے اُن کو آزاد کرنے کے لیے کچھ پیسا مانگا۔ حضرت جویریہؓ مالی تعاون کے لیے نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ بھی ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں۔ نبی اکرمؐ نے ساری رقم ادا کرکے اُن کو آزاد کرادیا۔ پھر فرمایا کہ بہتر ہے کہ میں تمہارے ساتھ نکاح کرلوں۔ چناں چہ نبی کریمؐ کے ساتھ اُن کا نکاح 5 ہجری میں ہوگیا…… یعنی اُس وقت آپؐ کی عمر 58 سال کی تھی۔ جب لشکر نے یہ سنا کہ سارے قیدی نبی اکرمؐ کے رشتہ دار بن گئے، تو صحابۂ کرام نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح نبی اکرمؐ کی اس چھوٹی سی تدبیر نے 100 سے زیادہ انسانوں کو لونڈی وغلام بنائے جانے سے بچا دیا۔ نیز حضرت جویریہؓ کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کرلیا۔ حضرت جویریہؓ کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت صفیہؓ بنت حیی بن اخطب:۔ ان کا تعلق یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر سے ہے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے باپ، بھائی اور شوہر کو جنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ قید ہوکر آئیں۔ نبی اکرمؐ نے ان کو اختیار دیا کہ چاہیں اسلام لے آئیں…… یا اپنے مذہب پر باقی رہیں۔ اگر اسلام لاتی ہیں، تو مَیں نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ورنہ ان کو آزاد کردیا جائے گا…… تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ جا ملیں۔ حضرت صفیہؓ اپنے خاندان کے لوگوں میں واپسی کی بجائے اسلام قبول کرکے نبی اکرمؐ سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ نبی اکرمؐ نے ان کو آزاد کردیا۔ پھر 7 ہجری میں ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت نبی اکرمؐ کی عمر 60 سال تھی۔ حضرت صفیہؓ کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ:۔ حضرت ابو سفیان امویؓ کی بیٹی ہیں۔ جن دنوں ان کے والد نبی کریم کے ساتھ لڑائی لڑرہے تھے، یہ مسلمان ہوئی تھیں۔ اسلام کے لیے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ پھر شوہر کو لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کی…… وہاں جاکر اُن کا شوہر مرتد ہوگیا۔ ایسی سچی اور ایمان میں پکی عورت کے لیے یہ کتنی مصیبت تھی کہ اسلام کے لیے باپ، بھائی، خاندان، قبیلہ اور اپنا وطن چھوڑا تھا، پردیس میں خاوند کا سہارا تھا۔ اس کی بے دینی سے وہ بھی جاتا رہا۔ نبی کریمؐ نے ایسی صابرہ عورت کے ساتھ حبشہ ہی میں 7 ہجری میں نکاح کیا…… یعنی اُس وقت آپؐ کی عمر 60 سال تھی۔ 44 ہجری میں حضرت امِ حبیبہؓ کا انتقال ہوگیا۔
٭ امّ المؤمنین حضرت میمونہؓ:۔ ان کے دو نکاح ہوچکے تھے۔ اُن کی ایک بہن حضرت عباسؓ کے، ایک بہن حضرت حمزہؓ کے، ایک بہن حضرت جعفر طیارؓ کے گھر میں تھیں۔ ایک بہن حضرت خالد بن ولیدؓ کی ماں تھیں۔ نبی اکرمؐ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کے کہنے پر 7 ہجری میں حضرت میمونہؓ سے نکاح کرلیا۔ اس وقت آپؐ کی عمر 60 سال تھی۔ 51 ہجری میں حضرت میمونہؓ کی وفات ہوئی۔
ان ازواجِ مطہرات میں سے حضرت خدیجہؓ اور حضرت زینبؓ بنتِ خزیمہ کا انتقال آپؐ کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ باقی سب کا انتقال آپؐ کی وفات کے بعد ہوا۔
واضح رہے کہ یہ سب نکاح اُس آیت سے پہلے ہوچکے تھے، جس میں ایک مسلمان کے واسطے بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (بہ شرطِ عدل) چار تک مقرر کی گئی ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالا نے نبی اکرمؐ کی بیویوں کو دوسروں کے لیے حرام قرار دیا…… جیسا کہ مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے۔
نیز سورۃ الاحزاب 52 میں اللہ تعالا فرماتا ہے: ’’اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔ اور نہ یہ درست ہے کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے نکاح کرو۔‘‘
یعنی آپؐ کو ان ازواج مطہرات کے علاوہ (جن کی تعداد اس آیت کے نزول کے وقت 9 تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرمؐ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔
یاد رکھیں کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریمؐ نے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہی کیے۔ نیز عربوں میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا عام رواج تھا۔
نیز صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرمؐ کو چالیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔ غور فرمائیں کہ چالیس مرد کی طاقت رکھنے کے باوجودنبی اکرمؐ نے پوری جوانی اس بیوہ عورت کے ساتھ گزرادی جو پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں۔ نیز اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ اس کے بعد تین چار سال ایک دوسری بیوہ حضرت سودہؓ کے ساتھ گزار دیے۔ اس طرح 55 سال کی عمر تک آپؐ کے ساتھ صرف ایک ہی بیوہ عورت رہی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔