ماحول کی آلودگی میں جو عوامل کار فرما ہیں…… ان میں بڑھتی ہوئی آبادی، تعمیراتی بہتات (جس کی وجہ سے جنگلات کا خاتمہ ہورہا ہے) اور زرعی اراضی کی قلت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں سے مضرِ صحت مواد کے اخراج سے زمینی اور آبی ماحول آلودہ ہورہا ہے، جب کہ فضائی آلودگی میں معدنی، تیل و کویلہ کے استعمال کا اہم کردار ہے۔
لیکن آبی ماحول کی آلودگی میں جو خطرناک کردار پلاسٹک کا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس سلسلے میں عالمی ماہرین وقتاً فوقتاً عوام کو پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں، تاکہ عوام میں یہ تحریک پیدا ہو کہ پلاسٹک کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔
’’ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر‘‘ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے ذرات سمندر کے تمام حصوں تک پہنچ چکے ہیں۔ وائلڈ لائف گروپ نے پلاسٹک کے حوالے سے ایک عالمی معاہدہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی شایع کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سمندر میں پلاسٹک کی شدید آلودگی سے 88 فیصد سمندری انواع متاثر ہوچکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کھانے والوں میں وہ مچھلیاں بھی شامل ہیں جو عام طور پر انسانوں کی خوراک ہیں۔ یہ رپورٹ جرمنی کے الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے مرتب کی گئی ہے اور اس موضوع پر 2590 سائنسی مطالعات کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے نتایج اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ سمندر میں پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے مطابق بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل پلاسٹک کے جزیرے بن چکے ہیں، جس سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تشکیل پائے ہیں۔ سطح سمندر سے لے کر اس کی گہرائی تک، قطبین سے لے کر دور دراز کے ساحلوں اور جزایر تک تقریباً ہر سمندری حصے میں پلاسٹک پایا جاتا ہے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے جان داروں سے لے کر وہیل مچھلیوں کے پیٹ تک میں پلاسٹک ملا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 2144 سمندری آماج گاہوں کو پلاسٹک کی آلودگی سے خطرات کا سامنا ہے جب کہ ان آماج گاہوں میں موجود آبی حیات جن کی بیسیوں اقسام ہیں…… پلاسٹک کھانے پر مجبور ہیں۔ 90 فیصد سمندری پرندوں اور 50 فیصد کچھوؤں کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا ہے کہ گھونکھوں، شیل فش اور سیپیوں میں بھی پلاسٹک کا مواد پایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ دنیا میں پلاسٹک کی پیداوار 2040ء تک دوگنی ہوجائے گی جس کی وجہ سے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے میں چار گناہ اضافہ ہوجائے گا۔ پلاسٹک کی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے بحیرۂ زرد، مشرقی بحیرۂ چین اور بحیرۂ روم ہیں۔ یہ علاقے ابھی سے اس حد تک پہنچ چکے ہیں جتنے پلاسٹکی ذرات ایک سمندری علاقہ جذب کرسکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگر چہ ماہی گیری بھی سمندری آلودگی کی اہم وجہ ہے لیکن بنیادی مسئلہ ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے پھیلاؤ کا ہے۔ پلاسٹک سستا ہونے کی وجہ سے اس سے بنی ہوئی اشیا کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگر صورت حال میں تبدیلی نہ لائی گئی، تو ایکو سسٹم تباہ ہوسکتا ہے جس سے سمندری خوراک کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوسکتاہے۔
ہر سال5جون کو ساری دنیا میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اسے منانے کا مقصد دنیا کے باشعور انسانوں کو احساس دلانا ہے کہ کرۂ ارض کو ہر قسم کی زمینی آبی اور فضائی آلودگی محفوظ رکھنا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ہم سب کا فرض ہے کہ زمین، فضا اور سمندروں کو آلودگی سے بچانے کے ہر ممکن کوشش کریں تاکہ انسان کا مستقبل محفوظ ہو۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔