بلی آئی لش (Billie Eilish) اپنے ابتدائی ٹین ایج میں تھیں…… جب یوٹیوب سے اُنہیں شہرت ملنے کا آغاز ہوا۔ اسٹینڈرڈ مغربی فی میل سنگرز کے مقابلے میں وہ بہت کم عمر اور مختلف تھیں۔ بلی کا ڈپریشن اور ان کی سوسائیڈل، شدت پسند فیمنسٹ سوچ ان کے گانوں کی شاعری میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ڈپریشن کو آرٹ میں بدلا۔ آج بلی ایک کامیاب سنگر ہیں…… لیکن ان کو کبھی شدید چاہنے والے فینز اکثر ان سے ناراض نظر آتے، ان پر تنقید کرتے ہیں۔ بلی اپنے کیریئر کی شروعات میں اپنے فینز سے بہت قریب رہتی تھیں۔ انسٹاگرام پر لائیو باتیں کرنا، کنسرٹز کے دوران میں فینز کے ساتھ بیٹھنا وغیرہ…… لیکن میوزک انڈسٹری میں ایک مڈل کلاس امریکی شہری سے ملینیئر بننے کے بعد، وقت گزرنے کے ساتھ وہ انڈسٹری کے اصول سیکھ گئیں اور فینز سے فاصلہ اختیار کرلیا۔
بلی آئی لش جیسی مثالیں ہمارے ارد گرد بھی پائی جاتی ہیں۔ جب کوئی دوست، بھائی/ بہن اور رشتہ دار ایک عرصہ ہمارے قریب رہنے کے بعد زندگی میں فائنانشلی/ مینٹلی آگے بڑھ جاتے ہیں، تو ہم انہیں شیم (Shame) کرنے لگتے ہیں کہ وہ بدل گئے ہیں۔ یقینا وہ بدل ہی گئے ہوتے ہیں۔ وہ سیاست دان جو پہلے عوام کے درمیان ہوتا تھا، اب عہدے پر پہنچنے کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں نوٹ کی جاتی ہیں۔ وہ دوست جو ہمارے ساتھ ڈھابے پہ چائے پیتا تھا، آج فائیو سٹار ہوٹل میں ایگزیکیوٹومیٹنگز اٹینڈ کرتا ہے…… اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ ہماری کال بھی اٹینڈ نہیں کرتا…… یا پھر وہ فیملی ممبر/ دوست جو پہلے آپ کا ہم خیال تھا…… لیکن اب اس کے نظریات تبدیل ہوگئے ہیں…… اور اب وہ کہیں اور وقت گزارنا پسند کرتا ہے اور آپ کو اگنور کرتا ہے۔
سوشیولاجسٹز کے مطابق جب ہماری کلاس بدلتی ہے، تو اس کا نمایاں اثر ہمارے رویے، صحت، سوچ، ویلیوز (Values)، بیلیفز (Beliefs) پر بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ بدلاو جان بوجھ کر نہیں لایا جاتا…… بلکہ نئی سوچ/ کلاس میں نئی رئیلٹی(Reality) سے متعارف ہوکر آتا ہے۔
تبدیلی (Change) فطرت کا قانون ہے۔ صرف فائنانشلی ہی نہیں اکثر جب مینٹلی بھی لوگ آگے بڑھ جائیں، تو بھی ان کے رویے میں تبدیلی آنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کو شیم کرنے کی بجائے اس حقیقت کو قبول کرنا بہتر ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھ چکے ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں اور ترجیحات مختلف ہوچکی ہیں۔ جو جلن ہم آگے بڑھنے والوں سے محسوس کرتے ہیں (یہ جلن فطری ہے) وہ اس بندے کو شیم (شیم بہت ٹاکسک عمل ہے) کرنے کی بجائے قبولیت سے بھی کم یا ختم کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ وہ معاملات جو ہمارے کنٹرول میں نہ ہوں…… اکثر ان کو قبول کرلینے سے ’’مینٹل انرجی‘‘ بچتی ہے…… اور یوں ہماری ’’سیلف رسپیکٹ‘‘(Self Respect) بھی قایم رہتی ہے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔