ٹریفک جام مسئلہ اور ہمارے عمومی رویے

پاکستان کی آبادی تقریباً بائیس کروڑ ہے۔ اب اگر یہ اتنا گنجان آباد ملک ہے، تو مسئلے بھی اس میں زیادہ ہوں گے۔ جیسے کہ غربت، بیروزگاری، سکول، کالجز، ہسپتال وغیرہ کی کمی اور ان سب کو چھوڑ کر ایک اوربڑا مسئلہ ٹریفک کا نظام ہے۔ اس نظام نے لگ بھگ پورے ملک کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ویسے تو لوگ گاڑیوں کا استعمال وقت کے ضیاع کو ترک کرنے کے لئے کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات الٹا لینے کے دینے پڑجاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنی منزل کو جلد سے جلد پہنچا جائے، ہمارا یہ عمل وقت کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق موٹرسائیکل کے کارخانوں کو ملا کر پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں کی تعداد لگ بھگ تین ہزار دو سو ہے، جو ہر سال تقریباً ایک لاکھ اسّی ہزار موٹر سائیکلیں اور دو لاکھ نئی گاڑیاں بناتی ہیں۔ اس طرح پاکستان میں سالانہ تین لاکھ اسّی ہزار گاڑیوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں نئی گاڑیاں تو دھڑادھڑ بن رہی ہیں، لیکن اس کے برعکس نئی سڑکیں بننے کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لئے کوئی ایسی پالیسی بھی زیر غور نہیں جو مستقل بنیادوں پر اس مسئلہ کا حل پیش کرسکے۔اس معاملہ میں حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور علم کے باوجود باشعور عوام کا بے شعور ہوجانا یکساں کمی ہے۔ اکثر اوقات ٹریفک جام صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ کچھ لوگ جلدی نکلنے کے چکر میں اپنا راستہ چھوڑ کر غلط راستہ اختیار کرلیتے۔ اس کے علاوہ مانو کچھ لوگ تو بس اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ہمیں اس نیک کام میں کوئی رہنما ملے اور اس طرح ایک گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اب اپنا راستہ تو پہلے سے بند ہوتا ہے، دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کا بھی حشر نشر کردیا جاتا ہے۔ یوں معمولی سا وقت بچانے کے چکر میں اپنا اور دوسروں کا ڈھیر سارا قیمتی وقت برباد کردیا جاتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق موٹرسائیکل کے کارخانوں کو ملا کر پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں کی تعداد لگ بھگ تین ہزار دو سو ہے، جو ہر سال تقریباً ایک لاکھ اسّی ہزار موٹر سائیکلیں اور دو لاکھ نئی گاڑیاں بناتی ہیں۔ اس طرح پاکستان میں سالانہ تین لاکھ اسّی ہزار گاڑیوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک ذرا سی دیر میرے خیال میں گھنٹوں پھر ٹریفک میں پھنسنے سے بہتر ہے۔ ہے کوئی جو اس نکتہ پر تھوڑا سا غور کرے؟

………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔