آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے بقول، ’’نرس بیمار کے لیے فرشتۂ رحمت ہے۔‘‘
پاکستان سمیت دنیا بھر میں نرسوں کا عالمی دن انٹرنیشنل نرسز ڈے 12 مئی کو بھرپور انداز سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد معاشرے میں بیماری کی حالت میں ہسپتالوں میں نرسز کے کردار اور اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے دنیا بھر میں محکمۂ صحت اور مختلف سماجی تنظیموں کے زیرِ اہتمام سیمینارز، مذاکرے اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ نرسز کا عالمی دن ’’انٹر نیشنل کونسل آف نرسز‘‘ کے زیرِ اہتمام 1965ء سے لے کر اب تک ہر سال 12 مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد ماڈرن نرسنگ کی بانی نرس ’’فلورنس نائٹ انگیل‘‘ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا بھی ہے…… جنھوں نے 1854ء کی جنگ میں صرف 38 نرسوں کی مدد سے 1500 زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کرکے صرف 4 ماہ کی مدت میں شرحِ اموات کو 42 فی صد سے کم کر کے 2 فی صد تک کر دیا تھا۔ (1)
شعبۂ صحت میں نرسنگ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔عالمی ادارۂ صحت نے 2020ء کو نرسوں کا عالمی سال قرار دیا ہے۔ پاکستان کی 8 نرسوں اور ’’مِڈوائفس‘‘ کو دنیا بھر میں موجود 100 ممتاز خواتین نرسوں اور مڈوائفس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے 43 ممالک سے 100نرسوں اور مڈوائفس کو ویمن اِن گلوبل ہیلتھ (ڈبلیو جی ایچ) کی جانب سے صحتِ عامہ کے معیارات کو بہتر بنانے کے لیے گراں قدر کام کرنے اور خصوصاً عالمی وبا جیسے مشکل حالات میں ان کی مسلسل خدمات کے اعتراف میں انھیں اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
یہ تنظیم عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ اُو) ، اقوامِ متحدہ پاپولیشن فنڈ، نرسنگ نا، انٹرنیشنل کونسل آف نرسز اور انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف مڈوائفس کے ساتھ اشتراک میں کام کرتی ہے۔ یہ 8 پاکستانی خواتین کون ہیں؟ ’’ایئر آف دی نرس اینڈ دی مڈوائفس 2020ء‘‘ کی فہرست میں پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر روزینہ کرملیانی، یاسمین پارپیو، ثمینہ ورتیجی، صائمہ سچوانی، مرینہ بیگ، شیلا ہیرانی، نیلم پنجانی اور صدف سلیم شامل ہیں۔ (2)
مریضوں کی تیمار داری کا کام اتنا ہی قدیم ہے جتنا اس زمین پر انسان کا وجود۔ تہذیب کی ترقی اور سماجی زندگی کے منظم ہونے کے نتیجے میں علاج معالجہ اور مریضوں کی دیکھ بھال علم اور فن بن گئے اور آج کی دنیا میں ڈاکٹر، نرس اور ہسپتال کے بغیر کسی مہذب معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ علاج معالجے کی سہولتیں کتنی ہی بہتر کیوں نہ ہوں، علاج کرنے والے اپنے شعبے کے کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، جب تک اس پورے نظام کو تربیت یافتہ نرس کی سہولت حاصل نہ ہو، علاج معالجے کا نظام کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔
پاکستان سمیت بیش تر ترقی پذیر ممالک میں نرسوں کی شدید قلّت ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قابلِ احترام پیشے کو عام لوگوں کی نگاہوں میں وہ اہمیت اور حیثیت حاصل نہیں…… جو ہونی چاہیے۔
نرسنگ ایک محترم پیشہ ہے۔ بیمار انسانوں اور دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے سفید لباس میں ملبوس نرس ایک ایسے فرشتے کی مانند ہے جو اپنے گفتگو کی نرمی اور دستِ مسیحائی کی بہ دولت اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے مریض کی دل جوئی کرتی ہے، اس میں بیماری سے مقابلے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے اور یہ یقین و اعتماد زندہ کرتی ہے کہ مرض کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، وہ ایک دن شفایاب ہو کر اپنے گھر کو لوٹے گا اور زندگی اس کے لیے ایک بار پھر حسین، دلچسپ اور مہربان بن جائے گی۔ (3)
نرسنگ کا پیشہ 300 قبل از مسیح میں رومی سلطنت کے عروج کے دوران میں فروغ پائی۔ قسطنطنیہ کے اندر ہسپتال تشکیل دے کر ڈاکٹروں کے ساتھ میل، فی میل نرسز ٹرین کیے گئے اور نرسنگ شعبے کو آگے لے جانے میں مدد کی گئی، مگر یہ سالم حقیقت ہے نرسنگ کا فروغ اور پھیلاو یورپ میں کیتھولیک چرچ کے زریعے ہوا۔
تاریخِ اسلام کو اٹھا کر دیکھا جائے، تو اس میں نرسنگ پیشے کی گراں قدر خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تاریخِ اسلام کی پہلی پیشہ ور مسلمان نرس روفائیدہ بنت سعد (روفائیدہ ال اسلامیہ) نامی خاتون تھی جنہوں نے نرسنگ کی تعلیم و تربیت اپنے والد سے، جو ایک معالج تھا، سیکھی۔ یہ نرس پہلی مسلمان خاتون تھی جنھوں نے ولینٹرز نرسز لے کر حضرت محمد صلی اللّٰہ وسلّم کے ساتھ جنگوں میں حصہ لے کر زخمیوں کی مرہم پٹی، پانی پلانا اور شہیدوں کی جسد خاکی کو احترام کے ساتھ پیک کیا۔
مسلمانوں کی مدینہ میں ریاست قایم ہونے کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نرس روفائیدہ کو بلا کر عورتوں اور لڑکیوں کو نرسنگ شعبے کے ساتھ منسلک کرکے تربیت دینے کے بعد مریضوں کی خدمت کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا اور بعد میں یہی نرس مسجد کے باہر بیٹھ کر مریضوں کا معاینہ بھی کیا کرتے تھے ۔
1860ء میں رویال خاتون سونے کا چمچہ منھ میں لیکر پیدا ہوئی…… جس نے بعد میں جدید نرسنگ کی بنیاد رکھی۔ اس دردِ دل رکھنے والی خاتون کا نام فلورنس نائٹ اینگل تھا۔ اگر چاہتی، تو آرام سے زندگی گزار سکتی تھی…… مگر دکھی انسانیت اور مریضوں کے لیے دل میں خدمت کا جذبہ رکھ کر نہ صرف خدمت کی…… بلکہ نرسنگ پیشے کو بھی اعلا مقام تک پہنچایا۔ یہ نرس، نرسز کو تربیت دینے کے بعد مریضوں کی خدمت پر معمور کرکے تنخواہ اپنی جیب سے دیتی تھی۔ (4)
اس دن کو منانے کا آغاز 1953ء میں ہوا…… جب امریکہ کے شعبۂ صحت، تعلیم اورفلاح وبہبود سے منسلک ڈوروتھی سودرلیند نے امریکی صدر سے نرسوں کے عالمی دن کا اعلان کرنے سے متعلق رابطہ کیا۔ تاہم اس وقت ڈوروتھی کی پیش کردہ تجویز منظور نہیں کی گئی…… لیکن تین سال بعد 1956ء میں نرسوں کی بین الاقوامی کونسل نے 12 مئی کو ’’نرسوں کا عالمی دن‘‘ منایا۔ 12 مئی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ انگیل کا یومِ پیدایش بھی ہے۔
نرسوں کا عالمی دن فلورنس نائٹ انگیل اور دنیا بھر کی نرسوں کی خدمات کو یاد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
دنیا بھر میں نرسنگ ایک مقدس اور محترم پیشے کے طور پر مقبو ل ہے۔ ڈاکٹر شیرون ایم وینسٹین کے مطابق: ’’شعبۂ صحت کے معتبرترین افراد میں نرسیں بھی شامل ہیں، جن کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مریضوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ وہ معالج بھی ہیں، استاد بھی، وکیل بھی، مفکر بھی اور تو اور موجد بھی ہیں۔ ایک نرس مریض کی صحت یابی کے لیے 24 گھنٹے فعال نظر آتی ہے۔
نرسنگ کے پیشے سے منسلک مرد یا خواتین، مریضوں کی دیکھ بھال سے بڑھ کر بھی بہت سی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔ میرے نزدیک نرسنگ ایک معزز ترین پیشہ ہے اور نرسیں شعبۂ صحت کی روح اور دل کا درجہ رکھتی ہیں‘‘۔ (5)
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2 کروڑ سے زاید نرسیں خدمتِ انسانی کے جذبے کے تحت دنیا کے مختلف ہسپتالوں میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 69 لاکھ 41 ہزار 698 نرسوں کے ساتھ یورپ سرِفہرست جب کہ 40 لاکھ 95 ہزار 757 کے ساتھ براعظم امریکہ کا خطہ دوسرے، 34 لاکھ 66 ہزار 342 کے ساتھ مغربی بحرالکاہل تیسرے، 19 لاکھ 55 ہزار 190 کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا چوتھے، 7 لاکھ 92 ہزار 853 کے ساتھ افریقہ پانچویں نمبر پر ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نرسیں امریکہ میں ہیں جہاں 26 لاکھ 69 ہزار 603 نرسیں مختلف ہسپتالوں میں موجود ہیں۔
پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ 1949ء میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951ء میں نرسز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 62 ہزار 651 نرسیں ہیں۔ تاہم نرسنگ کا شعبہ تاحال متعدد مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 162 ادارے قایم ہیں۔ ان میں سے پنجاب میں 72، سندھ میں 59، بلوچستان میں 12 جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نرسنگ کے 19 ادارے قایم ہیں۔ ان اداروں سے سالانہ 1800 سے 2000 رجسٹرڈ خواتین نرسز، 1200 مڈ وائف نرسیں اور تقریباً 300 لیڈی ہیلتھ وزٹر میدان عمل میں آتی ہیں…… جب کہ نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف پانچ ہے۔ دوسری طرف صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ہسپتالوں میں نرسوں کی تعداد ضرورت سے کئی گنا کم ہے۔ تعداد کم ہونے کی وجہ سے موجودہ نرسوں پر کام کا بے پناہ دباو ہے، جس کی وجہ سے اکثریت میں ڈپریشن، کمر درد اور ہیپاٹائٹس کی بیماریاں عام ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ 10 برسوں کے دوران میں نرسوں کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، مگر اس کے باوجود 10 ہزار آبادی کے لیے صرف 5 نرسیں موجود ہیں…… جب کہ ایک سروے کے مطابق ملک کے صرف اچھے ہسپتالوں میں آٹھ بستروں پر مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے صرف ایک نرس موجود ہے۔
پاکستان بھر میں ایسے ہسپتال بھی موجود ہیں جہاں ایک وقت میں اسٹاف نرس یا چارج نرس کو بیک وقت پچاس سے زاید مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔پاکستان نرسنگ کونسل کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ایک نرس کو 4 بستروں کی دیکھ بھال کرنا چاہیے۔ (6)
1988ء میں اس عظیم پیشے کی حقیقت جاننے کے بعد زیادہ تعداد میں میل نرسز بھی اس شعبے کے ساتھ منسلک ہونا شروع ہوگئے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ لے کر نرسنگ پروفیشن میں قدم جمانے شروع کردیے اور آج پورے ملک میں میل/ فی میل نرسز بہترین انداز میں دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ (7)
درحقیقت نرسنگ ایک پیشہ نہیں بلکہ جذبے کا نام ہے…… بلکہ درحقیقت شعبۂ نرس ہی حقیقی جذبۂ خدمت خلق کی عظیم ترین مثال ہے۔ شدت، درد اور تکلیف کے عالم میں انسان سب سے زیادہ کسی ہم درد کا ہی متلاشی ہوتا ہے، اور جب کوئی اس کے درد کی دوا کرے، تو اس کڑے وقت میں اس درد کے مارے کا اس سے بڑھ کر محسن کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ (8)
کورونا وبا کے دوران میں فرنٹ لائن ورکرز میں نرسنگ کا شعبہ بھی صفِ اول رہا۔ کورونا وبا نے جہاں دنیا کو گھروں میں قید کیا، وہیں فرنٹ لائن ورکرز نے ویکسین سے قبل زندگی کا پہیہ چلانے میں اپنا اہم کردار کیا۔ وبا کے دور میں نرسنگ اسٹاف کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ (9)
جاتے جاتے محمد عثمان جامعی کی ایک نظم ’’تمھارا شکریہ‘‘ ملاحظہ ہو، اسے ایک طرح سے نرس برادری کو خراجِ تحسین سمجھ لیں:
’’تمھارا شکریہ‘‘
اے زندگی کے ساتھیو
حیات کے سپاہیو!
وبا سے لڑتے دوستو
نجات کے سپاہیو!
ہوا کی زد میں آئے، وہ
دیے بچارہے ہو تم
اندھیرا پھیلتا ہے اور
چراغ لارہے ہو تم
ہے بڑھتی آگ ہر طرف
جسے بجھا رہے ہو تم
ہتھیلی پر دھری ہے جاں
ڈرے بنا، رواں دواں
یہ جذبہ کتنا پاک ہے
ہو جیسے صبح کی اذاں
یہ ولولے ، یہ حوصلے
کبھی نہ ہوں گے رائیگاں
صدا ہر ایک دل سے ہے اُٹھی
تمھارا شکریہ
سبھی لبوں پہ ورد ہے یہی
تمھارا شکریہ
پکارتی ہے یہ گلی گلی
تمھارا شکریہ
تمھیں سے تو ہے فخرِآدمی
تمھارا شکریہ
یہ کہہ رہی ہے آنکھ کی نمی
تمھارا شکریہ!
٭حوالہ جات:
1) ہم سب ڈاٹ کام، 12 مئی ہے نرسوں کا دن، آصف خان رومی، 13 مئی 2019ء
(2 بی بی سی ڈاٹ کام، ’’ایئر آف دی نرس اینڈ دی مڈوائفس 2020: پاکستان کی آٹھ نرسیں عالمی فہرست میں شامل، ملک میں اس شعبے کی بہتری کیسے ممکن؟‘‘ عماد خالق، 1 جنوری 2021ء
3) کیرئیر ڈاٹ اُو آر جی ڈاٹ پی کے، زندگی کے راستے، نرسنگ
4) انواز نیوز ڈاٹ کام، نرسنگ کی تاریخ، نرسز کا مستقبل اور تبدیلی سرکار، 6 دسمبر 2019ء، ناصر علی شاہ
5) روزنامہ جنگ، نرسوں کا عالمی دن، 12 مئی 2019ء
6) فیس بوک، اچھی پوسٹیں، نرسوں کا عالمی دن، 24 مئی 2020ء
7) انواز نیوز ڈاٹ کام، نرسنگ کی تاریخ، نرسز کا مستقبل اور تبدیلی سرکار، 6 دسمبر 2019ء، ناصر علی شاہ
8) فیس بوک، اچھی پوسٹیں، نرسوں کا عالمی دن، 24 مئی 2020ء
9) دنیا نیوز، نرسز کے عالمی دن پر بی براؤن اور دنیا میڈیا گروپ کے تعاون سے سیمینار، 2 5جون 2021ء
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔