ندیم خان

امریکہ اور ناٹو کے افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان کی حیثیت ثانوی رہ گئی تھی۔ امریکہ اپنے معاملات میں مصروف ہوکر پاکستان اور افغانستان کے حالات سے آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیاتھا۔ نتیجتاً یہ خطہ سیاسی بحران کے ساتھ معاشی بحران کے لپیٹ میں بھی آگیا۔ پاکستان نے بہت کوشش کی کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی مدد کے لیے راضی کرے…… لیکن امریکہ کے سرد رویے کی وجہ سے یہ معاملہ مزید گمبھیر ہوتا گیا۔ پاکستان پر آئی ایم ایف کا شکنجہ سخت ہونے سے عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ بہت بڑھتا گیا۔ معمولاتِ حکومت چلانے مشکل ہوگئے۔ اس طرح جہاں عوام میں بے چینی بڑھتی رہی، وہاں حکومت اور اداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا…… لیکن معاشی تنزلی سے نکلنے کا راستہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر اور سیاسی طور پر غیرمستحکم ملک میں بے چینی بڑھنا قدرتی امر تھا۔ حالات سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ پاکستان کوشش میں تھا کہ کسی طرح ان حالات سے نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔
امریکہ کی آنکھیں پھیرنے کے بعد پاکستان کو دوسرے ممالک کے ساتھ رابطے بڑھانے کی ضرورت پیش آئی۔ توانائی کی کمی پر قابو پانے کے لیے روس کے ساتھ بھی رابطے کیے گئے۔ ایران، چین، سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور دوسرے مملک سے بھی رابطے بڑھا دیے گئے…… لیکن کوئی بھی ملک اس طرح کی مدد کرنے سے قاصر تھا کہ پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا مل سکے۔
بیجنگ اولمپکس نے اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کیا…… جب تقریب میں شریک روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے عمران خان کو دورۂ روس کی دعوت دی۔ 23 فروری کو عمران خان ماسکو پہنچے۔ روسی صدر ولادی میر پوتن نے ان کے ساتھ لنچ کیا اور ساتھ میں یوکرائن پر حملہ بھی کردیا۔ اس دن پوتن کے ساتھ پاکستانی وزیرِ اعظم کی تصویر بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی۔ پوری دنیا میں ایسا تاثر دیا گیا کہ پاکستان نے یوکرائن پر روس کے حملے کو سپورٹ کیا ہے۔ امریکہ اور ناٹو نے روس کے یوکرائن پر حملے پر بہت شور مچایا…… اور ساتھ میں یوکرائن کو ہر قسم کی فوجی اور معاشی مدد کی یقین دہانی بھی کرادی۔ روس پر بھی معاشی پابندیاں لگا دی گئیں…… اور ساتھ میں اقوامِ متحدہ میں روس کے خلاف لابنگ شروع کردی گئی۔ یہی ٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔
1990ء کے بعد سوویت یونین کے انحطاط سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا…… اس نے امریکہ کو پوری دنیا پر اپنا اثرورسوخ قایم کر نے میں مدد دی تھی…… اور دنیا تقریباً امریکہ کے پالیسیوں کے تابع تھی۔ جو امریکہ سے اتفاق نہیں کرتا اس کو مختلف طریقوں سے دبا دیا جاتا۔ عراق، لیبیا، افغانستان اور شام میں تو باقاعدہ فوج کشی کر کے ان کو تابع بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور وینزویلا جیسے ممالک میں سیاسی بے چینی پیدا کرنے کی کوششیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ تیل کے دولت سے مالا مال عرب ممالک کو اسرائیل یا اپنی بنائے ہوئے پراکسیز کی مدد سے دبا کر رکھا۔ روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر ناٹو کی مدد سے کام جاری رکھا۔ ایران پر معاشی پابندیاں مزید سخت کردیں۔ یوکرائن کو اسلحے سے لیس کرنا شروع کردیا گیا اور ساتھ میں اس کو یورپی یونین اور ناٹو میں شامل کرنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا۔ روس نے اس منصوبے پر کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اس منصوبے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ قرار دیا۔ روس کا موقف ہے کہ یوکرائن کو ناٹو میں شامل کرنے کا مطلب ہے کہ ناٹو روسی سرحد کے ساتھ فوجی اڈے بنا کر روس کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے جو کہ کسی طور پر قابلِ قبول نہیں…… لیکن امریکہ اپنے منصوبے پر مستقل مزاجی سے کام کرتا رہا اور یہی تنازعہ یوکرائن پر روس کے حملے کا سبب بنا۔
پاکستان کا مسئلہ تب بنا جب امریکہ نے روس کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے روس کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کی…… جس میں پاکستان نے غیر جانب دار رہ کر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ انڈیا اور چین بھی ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔ اس کے بعد امریکہ نے مختلف ذرایع سے پاکستان پر دباو ڈالنا شروع کیا۔ یہ امریکیوں کا پرانا وطیرہ ہے کہ شروع میں دھونس دھمکی سے کام چلاتے ہیں اور اگر اس سے کام نہیں بنتا، تو پھر دوسرے حربے جیسے کہ امداد وغیرہ کے نام پر وفاداریاں خریدنا…… جس کا تجربہ افعان جنگ کے دونوں فیزوں میں امریکہ کامیابی کے ساتھ کر چکا ہے اور پاکستان نے بھی ان کو مایوس نہیں کیا۔
لیکن …… اس دفعہ حالات کچھ اور ہیں۔ روس نے یوکرائن پر حملے کے بعد کئی دفعہ کھلے عام دھمکی دی ہے کہ اگر روس پر ناٹو کی کی طرف سے کسی قسم کا حملہ کیا گیا، تو یہ تیسری جنگِ عظیم کی شروعات ہوگی…… اور روس اس جنگ میں اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ ایک طرف امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ ہے جب کہ دوسری طرف روس کو چین، ایران اور تیسری دنیا کے تیل وسایل سے مالا مال کچھ ممالک کی سپورٹ بھی حاصل ہے ۔ یہ وہ ممالک ہیں جو ہمیشہ امریکی دھونس کا شکار بنے ہیں اور اب ان کو پوتن کی شکل میں امریکہ سے نجات دلانے والا ایک عالمی رہنما میسر ہے۔ روس کے خلاف سلامتی کونسل میں ووٹنگ حاصل کرنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی فون کال کا نہ تو سعودی عرب نے جواب دیا اور نہ عرب امارات نے۔ ہندوستان نے بھی روس کی مذمت سے انکار کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ اور برازیل بھی روسی کیمپ کی طرف مایل ہیں۔ "BRICS” کو فعال کیا جا رہا ہے۔ روس نے اپنا تیل اور گیس اپنی کرنسی روبل اور یا سونے میں بیچنے کا اعلان کردیا ہے۔ روس اوپیک کا زیادہ تیل سپلائی کرنے والا ممبر ہے، جب کہ روس کی گیس کمپنی ’’گازپروم‘‘ دنیا میں سب سے زیادہ گیس بیچنے والی کمپنی ہے۔ یورپ کی معیشتوں کا زیادہ تر دار و مدار روس کے گیس اور تیل پر ہے۔ اب اگر روس ڈالر میں تیل اور گیس بیچنے سے انکار کرتا ہے، تو اس سے 1970ء سے لے کر آج تک دنیا میں تیل کے کاروبار کو صرف امریکی ڈالر میں کرنے کے معاہدہ کو زبردست دھچکا لگے گا۔ امریکہ کی پوری معیشت پٹرو ڈالر ایگریمنٹ کے گرد گھومتی ہے۔ اس سے امریکی معیشت کو اتنا بڑا دھچکا لگے گا کہ امریکہ کے لیے سنبھلنا ناممکن ہوگا۔
اس جنگ میں نہ روس کے پاس زیادہ آپشن ہیں اور نہ امریکہ کے پاس۔ دونوں میں سے جو بھی پیچھے ہٹا، تو یہ اس ملک کی سالمیت پر وار ہوگا۔ ایک سروے کے مطابق روس کے 88 فیصد لوگ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں صدر پوتن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس کے پرانے کمیونسٹ بھی اس کے ساتھ ہیں۔ یوکرائن میں جنگ کے فوٹیج دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جنگ میں روسی جنگی گاڑیوں پرسرخ جھنڈے لگے ہیں۔ روس کے جھنڈے بہت کم نظر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ روس ایک دفعہ پھر سوویت یونین والی پوزیشن کے حصول میں لگا ہے۔ پڑوسی ممالک جو سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھے…… میں بھی حکومتوں اور عوام کی ہم دردیاں روس کے ساتھ ہیں۔ بائلو رشیا اور قزاقستان اس جنگ میں روس کا علانیہ ساتھ دے رہے ہیں جب کہ دوسری سنٹرل ایشین ممالک بھی اپنے مفادات کی وجہ سے روس کا ساتھ دیں گے ۔
اب بات امریکہ اور ناٹو کی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ یورپ کو روس کا ڈر دکھا کر اپنے ساتھ رکھا ہے۔ اب اگر امریکہ روس کو یوکرائن میں روکنے میں ناکام ہوتا ہے، تو اس سے پورے یورپ میں ناٹو کے وجود پر سوالیہ نشان لگے گا…… اور امریکہ کے لیے یورپ کو ہاتھ میں رکھنا نہ صرف ناممکن ہوجائے گا…… بلکہ اس کو یورپ سے نکل کر براعظم امریکہ تک محدود ہونا پڑے گا اور دنیا کے چوہدراہٹ سے کنارہ کش ہونا پڑے گا ۔ جو امریکہ کو کبھی منظور نہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ کا موجودہ شکل میں برقرار رہنا ناممکن ہوگا۔
اگر خدا نخواستہ روس اور ناٹو آمنے سامنے آتے ہیں، تو یہ جنگ بہت خطرناک ہوگی۔ روایتی اسلحے میں روس ناٹو اور امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اگر امریکہ اور ناٹو براہِ راست روس سے یوکرائن کے معاملے پر الجھتے ہیں، تو روس لا محالہ اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ اس ضمن میں روسی صدر کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے روسی افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جوہری فورسز کو ’’خصوصی الرٹ‘‘ پر رکھیں۔ روس کے سربراہ پہلے ہی دبے الفاظ میں خبردار کرچکے ہیں کہ وہ یوکرین پر حملے کے آغاز میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر رضامند تھے۔ گذشتہ ہفتے وہ خبردار کرچکے ہیں کہ ’’جس نے بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی‘‘ اسے ان نتایج کا سامنا کرنا پڑے گا جو آپ نے ماضی میں نہیں دیکھے ہوں گے۔ پوتن کے ان الفاظ کو بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بات سیدھی ہے کہ کسی بھی جارحیت یا حادثے کی صورت میں دنیا ایٹمی جنگ کے لپیٹ میں آسکتی ہے۔ اب دنیا چوں کہ ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، اس لیے اس جنگ کے اثرات بھی عالمگیر ہوں گے اور پوری دنیا پر اس کے اثرات ہوں گے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اس جنگ سے دور نہیں رہ سکتا۔ اگر پاکستان چاہے بھی، تو بھی نہیں۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان میں روس، امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین، انڈیا اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ دنیا میں ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ممالک کی کل تعداد 9 ہے۔ پاکستان کے متعلق باور کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس 150 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ایک منظم اور پیشہ ور فوج بھی ہے…… جس کا شمار دنیا کی بڑی فوجوں میں ہوتا ہے۔
یوکرائن میں جو آگ لگی ہے، وہ کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اس صورت میں پاکستان کا غیر جانب دار رہنا اگر ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہوگا۔ اب جب کہ چین اپنا وزن روس کے پلڑے میں ڈال چکا ہے، تو اس صورت میں پاکستان کیا کرے گا؟ چین کے خلاف جانا ان حالات میں ناممکن ہے…… اور ماضی کی طرح امریکہ کو سپورٹ کرنا بھی ناممکن ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہوگی کہ اس ممکنہ جنگ میں اگر پاکستان کو اپنی حمایت میں نہ لے سکے، تو کم از کم پاکستان سے یہ گارنٹی ضرور لے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اس جنگ میں استعمال نہ ہوں۔ سیاسی اور عسکری حلقے اس بات کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ نو آموز سیاستدان اس معاملے کو سڑکوں پر لاکر آہنی دکان داری چمکانے میں مصروف ہیں۔ اس وقت ملک کو سیاسی افراتفری میں دھکیلنا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور اس کو نہایت پیشہ ورانہ انداز میں لینے کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر لکھتے وقت کراچی یونیورسٹی میں چائنیز اساتذہ پر خودکش حملے کی خبر آئی جو ’’الارمنگ‘‘ ہے۔ اس حملے میں تین چینی اساتذہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے…… جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں چینی باشندوں پر حملے بہت تشویش ناک ہیں۔ درحقیقت یہ حملہ چینی اساتذہ پر نہیں…… بلکہ پاکستان کے اوپر ہے۔ آج ہی روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے تیسری عالمی جنگ چھڑنے کی بات کی۔ پاک افغان سرحد پر مسلسل کشیدگی ہے۔ سرحد کے اس پار پاک فوج پر حملے جاری ہیں…… جن میں جانی نقصانات ہو رہے ہیں۔ افغانستان کے اندر بھی مساجد اور سکولوں پر حملوں میں روزانہ جانی نقصانات ہورہے ہیں۔ پاکستان کے جنوبی اضلاع میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار حملوں کی ضد میں ہیں۔ معاشی اعشاریے بہت خطرناک ہیں۔ بجلی، تیل اور آٹے جیسی بنیادی اشیا ناپید ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ تقریباً ایک مہینے سے بغیر کسی حکومت کے چل رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے پاس ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے علاوہ کوئی پروگرام نہیں۔ حالات بہت خطرناک ہیں۔ اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادی ایک طرف جب کہ دوسری طرف روس اور اس کے اتحادی پاکستان کے جوہری اثاثوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ آنے والی ممکنہ تیسری جنگ عظیم جوہری جنگ ہوگی…… جس میں ان 9 ممالک کا کردار سب سے زیادہ ہوگا۔ وہی 9 ممالک جن کے پاس جوہری صلاحیت ہے ۔
اس وقت پاکستان کو اپنے پتے بہت ہوشیاری سے کھیلنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو ملک میں جاری سیاسی افراتفری کو جلد از جلد ختم کرنا ہے۔ دوسرے نمبر پر معاشی معاملات میں بہتری لانا ہے اور تیسرے نمبر پر روس اور امریکہ کے درمیان جاری یوکرائن کی جنگ سے اپنے آپ کو حکمت اور تدبیر سے الگ رکھنے کا پلان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت امریکہ پاکستان کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا۔ دھونس دھمکی سے بھی کام لے گا اور ڈالروں سے بھی…… جب کہ دوسری طرف روس اپنے حلیف چین کی مدد سے پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات بڑھانے کی کوشش جاری رکھے گا۔ مستقبل میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔
اس دفعہ پاکستان کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ اس بار کسی بھی غلطی کی گنجایش نہیں۔ عسکری اور تمام سیاسی قیادتوں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ ورنہ بقولِ شاعر
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔