ایک بات تو میاں شہباز شریف نے بتا دی کہ وہ بااختیار نہیں۔ حالاں کہ وزیرِ اعظم ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ وہ چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ ملک کا ہر ادارہ اس کی ہدایت پر عمل کرتا ہے۔ فوج کا سربراہ اسے سیلوٹ کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بااختیار اور کون ہو سکتا ہے…… مگر کوئٹہ میں اپنے خطاب میں انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے۔ اپنے اتحادیوں کے بڑے مطالبے پر بات انہوں نے بااختیار لوگوں پر ڈال دی۔
اس طرح گذشتہ روز جمشید دستی نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آج تک اچھے برے کی تمیز نہیں۔ زرداری کو 7 سال جیل میں رکھا۔ دنیا کی کرپشن اس کے کھاتے میں ڈال دی۔ سب سے بڑا لوٹیرا قرار دیا……اور وہ رہا ہوکر صدرِ پاکستان بن گیا۔ اب پھر اسی امید پر ہے۔ نواز شریف کو جنرل مشرف کا طیارہ گرانے کے چکر میں بہت بڑا مجرم بنا دیاگیا۔ اسے جیل میں رکھا گیا۔ پھر اسی قومی مجرم کو این آر او دے دیا گیا اور وہ سعودی عرب چلا گیا۔ اس کے بعد پھر افواجِ پاکستان کے خلاف سازش، جنڈال سے تعلقات، قومی راز اِفشا کرنے کا الزام، اربوں کا مجرم…… سزا ہوتی ہے…… جعلی بیماری پر اسے بھگا دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف ضمانت پر، وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ پر 15 کلو منشیات کا مقدمہ، اے این ایف نے بنایا،سبھی لوٹ مار کرنے والے ساڑھے تین سال بعد پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد تحریکِ عدمِ اعتماد آتی ہے۔ آئین کی بحالی اور اس پر مکمل عمل درآمد کے لیے رات 12 بجے سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان اور کچھ فاصلے پر واقع اسلام آباد ہائیکورٹ بھی کھل جاتی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے اور اقتدار ان کے حوالے ہو جاتا ہے، جن پر سنگین الزامات تھے…… مگر کھیل کہاں سے شروع ہوتا ہے اور ختم کہا ں ہوتا ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ صرف وہی جانتے ہیں جو اس کھیل کا حصہ ہیں…… لیکن ایک بات شاید ان کو بھی معلوم نہیں، جو سب کچھ جانتے ہیں کہ اس وقت ملک خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے۔
قارئین! جمشید دستی کی باتیں غور سے سنیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک عام انسان اس وقت عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ وہ روزی روٹی کے پیچھے بھاگ سکتا ہے نہ اپنے بچوں کو اعلا تعلیم ہی دلا سکتا ہے۔ غریب کا بچہ ماسٹر ڈگری حاصل کے بعد بھی کلرک کی نوکری کے لیے سفارش ڈھونڈ رہا ہوتا ہے…… اور بااثر خاندان کے بچے کے لیے نوکری انتظار کررہی ہوتی ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ سندھ کے دیہات میں آگ لگ گئی۔ 9 انسانی جانیں جل کر راکھ ہوگئی۔ مَیں نے ایک تصویر اپنے موبائل میں محفوظ کرلی…… جب بھی دیکھتا ہوں، آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ ماں آگ میں جلے ہوئے اپنے لختِ جگر کوسینے سے لپٹائے رو رہی ہے۔ وہ نجانے کیا سوچتی ہوگی…… مگر میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ سندھ ہاؤس میں کروڑو ں روپے کی بولیاں لگانے والوں نے اربوں روپے لگا کر عمران خان کی حکومت تو گرا دی…… مگر اپنے ان ووٹروں کا کچھ نہیں کیا…… جن کی بدولت وہ ایوانِ اقتدار میں داخل ہوتے ہیں۔
ایک طرف تو یہ سیاست دان عوام کا نام لیتے ہیں…… ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں، اور دوسری طرف ان کا ووٹر آگ میں زندہ جل رہا ہے۔ اگر تو یہ عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور عوام کی فکر نہیں کرتے، تو ان سے بڑا بے حس انسان کوئی نہیں…… یا پھر شیخ رشید اور جمشید دستی کے مطابق سبھی گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں۔ عوام جلیں، مریں، کٹیں یا بھکاری بن جائیں…… ان کی بلا سے! کیوں کہ یہ جہاں سے آتے ہیں…… وہی ان کے نگہبان بھی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو بھی انہوں نے ہی پروان چڑھایا اور سر پر شفقت کاہاتھ رکھا۔ اس کو لیڈر بنایا۔ اگر ایسا ہے، تو پھر اب ان کی مخالفت کے بعد اب اس کی مقبولیت افق کو چھو رہی ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان بھی سمجھ رہے تھے کہ اسے ہم نے لیڈر بنایا ہے۔ ہمارے بغیر یہ کچھ نہیں…… لیکن آج وہ اس کے مخالف سمت میں کھڑے ہیں…… لیکن اس کی مقبولیت تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر اتحادی یہ سمجھتا رہا کہ ہمارے دم سے اس کی لیڈری کا بھرم قایم ہے۔ انہوں نے چھوڑ دیا حکومت چلی گئی…… لیکن اس نے تاریخ ساز جلسے کرکے ان کو غلط ثابت کر دیا۔ منحرف ارکان سمجھ رہے تھے کہ ہم چھوڑ جائیں گے اور یہ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے گا…… لیکن ان کی توقعات کے برعکس ہوا اور اب بچہ بچہ ان کو لوٹے کے نام سے گالی دے رہا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں جو تاریخی لوٹے ان منحرف اراکین کو پڑے، وہ بھی 74 سالہ تاریخ میں کسی کو نہیں پڑے۔ ڈپٹی سپیکردوست مزاری کو اپنی سیٹ سے اُٹھ کر بھاگنا پڑا۔ قاضی نے اس وقت کی اپوزیشن کی درخواست پر عدالت لگائی…… لیکن دن بارہ بجے اس کی درخواست کو وقت نہ ہونے کی بدولت رد کیا۔ اب وہ یہ درخواست لے کر عوامی عدالت پہنچ گیا، تو قاضی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ کہ ہم 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
عمران خان کی سابقہ بیوی نے سوچا میں اس کو چھوڑ کر اس پر کتاب لکھوں گی، تو لوگ اس سے نفرت کریں گے…… لیکن الٹا لوگوں نے اس کو ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔اب اس کی ٹویٹ پر لوگ جو اُسے کہتے ہیں، وہ پڑھنے کے قابل بھی نہیں۔ الغرض، بے شمار ایسی نام ور شخصیات ہیں جو خود کو اہم ترین گردانتی تھیں…… جنہوں نے سوچا تھا کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آج قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور کپتان پوری آب و تاب کے ساتھ سیاست کے فلک پر چمک رہا ہے۔ اپنی روشنی سے پاکستان کے سیاسی اندھیرے میں امید کی کرن بنا ہوا ہے۔ اس کے مخالفین تو کہتے ہیں کہ ہم ڈیڑھ سال بعد الیکشن کروائیں گے…… مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کروانا اب بھی خان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب بھی پاکستان سے پیار کرنے والے عوام کو احتجاج کی کال دیں گے، تو اس کے بعد الیکشن کا اعلان ہو جائے گا…… مگر بدمزگی کے بعد اسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے عمران خان نے لاہور جلسہ میں بڑا واضح پیغام دیا کہ غلطی کرنے والے اب بھی الیکشن کروادیں، تاکہ ملکی حالات اسی طرح چلتے رہیں، ورنہ جمشید دستی نے بتا دیا ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔