اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ تعالا کے حضور یکسو ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ خلوت میں خوب توبہ و استغفار کرتا ہے۔ تلاوت، نوافل، ذکر و اذکار کرتا ہے۔ دعا و التجا کرتا ہے اور اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ میں شب قدر کی تلاش اور اس مبارک رات کی عبادت میں کامیاب ہوجاؤں، تاکہ اللہ تعالا مجھ سے راضی ہو جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ’’ رسولؐ اﷲ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ دنیا دارِ فانی سے پردہ فرما جانے تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔‘‘ (بخاری)
فضلیتِ اعتکاف کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’جو شخص اللہ تعالا کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، تو اللہ تعالا اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کوآڑ بنا دیں گے۔ ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔‘‘
نزولِ قرآن سے پہلے سرکارِ دوعالمؐ کی طبیعت مبارک میں سب سے الگ ہوکر تنہائی میں اﷲ تعالا کی عبادت اور اس کے ذکروفکر کا جو بے قراری والا جذبہ پیدا ہوا تھا، جس کے نتیجہ میں آپؐ مسلسل کئی کئی مہینے غارِ حرا میں خلوت نشینی کرتے رہے……یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپؐ پر قرآنِ مجید کا نزول شروع ہوا۔ چناں چہ حرا کے اس اعتکاف کے آخری ایام میں اﷲ ربّ العزت کی طرف سے حضرت جبرئیل ؑ، سورۂ اقرأ کی ابتدائی آیات لے کر نازل ہوئے۔ تحقیق یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینا اور اس کا آخری عشرہ تھا۔ اور وہ رات شب قدر تھی۔ اس لیے بھی اعتکاف کے لیے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا۔
روح کی تربیت اور نفسانی خواہشوں کو ترک کرکے تقوا اختیار کرنے کے لیے رمضان المبارک کے روزے تمام افراد امت پر فرض کیے گئے ہیں۔ اور اپنے باطن میں روحانیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لیے اتنا مجاہدہ اور نفسانی خواہشات کی اتنی قربانی توہر ایک مسلمان کے لیے لازم کردی گئی کہ وہ اس پورے مہینے میں اﷲ تعالا کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن کو نہ کچھ کھائے نہ پیے…… اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ فضول باتوں سے بھی پرہیز کرے اوریہ پورا مہینا ان پابندیوں کے ساتھ گزارے۔ اور اس سے آگے اللہ تعالا سے خصوصی ترقی پیدا کرنے کے لیے اعتکاف رکھا گیاہے، کہ اس میں اﷲ کا بندہ سب سے کٹ کر اور سب سے ہٹ کر اپنے مالک و رازق کے در پر پڑجاتا ہے، اسی کو یاد کرتا ہے، اسی کے دھیان میں رہتا ہے، اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے، اس کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہے، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے اور رحیم و کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے، اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے، اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں، اور اسی حال میں اس کی راتیں، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے۔
حدیثِ قدسی میں اللہ سبحانہ و تعالا کا فرمان ہے: ’’میرا بندہ جب میری پسندیدہ اور فرض کردہ کسی چیز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے، اور جب میرا بندہ نوافل کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرتا ہے، تو مَیں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اورجب مَیں اس سے محبت کرنے لگوں، تو مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اورآنکھ بن جانتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اوراس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اوراس کی ٹانگ بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اوراگر وہ مجھے سے مانگے، تو مَیں اسے دیتا ہوں، اورمیری پناہ میں آنا چاہے، تو مَیں اسے پناہ دینا ہوں۔‘‘( صحیح بخاری)
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے، فرمایا کہ معتکف کے لیے شرعی دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے نہ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے باہر نکلے، نہ عورت سے صحبت کرے، نہ بوس و کنارکرے اور اپنی ضرورتوں کے لیے بھی مسجد سے باہر نہ جائے، سوائے ان ضرورتوں کے جو بالکل ناگزیر ہیں (جیسے پیشاب و پاخانہ وغیرہ) اور اعتکاف (روزہ کے ساتھ ہونا چاہیے) بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں، اور جامع مسجد میں ہونا چاہیے، اس کے سوا نہیں۔ ‘‘(سنن ابی داؤد)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالمؐنے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے) گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرف جاری رہتا ہے، اور نامۂ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
یعنی جب بندہ اعتکاف کی نیت سے اپنے آپ کو مسجد میں مقید کردیتا ہے، تو اگرچہ وہ عبادت اور ذکر و تلاوت کے راستہ سے اپنی نیکیوں میں خوب اضافہ کرتا ہے…… لیکن بعض بہت بڑی نیکیوں سے وہ مجبور بھی ہوجاتا ہے، مثلاً وہ بیماروں کی عیادت اور خدمت نہیں کرسکتا جو بہت بڑے ثواب کا کام ہے، کسی لاچار مسکین یتیم اوربیوہ کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتا، کسی میت کو غسل نہیں دے سکتا، جو اگر ثواب کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہو تو بہت بڑے اجر کا کام ہے۔ اسی طرح نمازِ جنازہ کی شرکت کے لیے نہیں نکل سکتا، میت کے ساتھ قبرستان نہیں جاسکتا، جس کے ایک ایک قدم پر گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکیاں لکھی جاتی ہیں…… لیکن اس حدیث میں اعتکاف کرنے والے کو بشارت سنائی گئی ہے کہ اس کے حساب اور اس کی نامہ اعمال میں اﷲ تعالا کے حکم سے وہ سب نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں جن کے کرنے سے وہ اعتکاف کی وجہ سے مجبور ہوجاتا ہے، اوروہ ان کا عادی تھا۔ اللہ پاک ان محروم نیکیوں کا نعم البدل بہت بڑے اجر کی شکل میں عطا فرماتے ہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں آخری عشرۂ رمضان کے اعتکاف کی توفیق عطا فرمائے، جوکہ نبی کریمؐ کی مبارک سنت، لیلۃ القدر جیسی مبارک رات کی عبادت کا ذریعہ اوراللہ تعالا کی رضا و خوشنودی کاباعث ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔