لفظ ’’کوہستان‘‘ فارسی الفاظ ’’کوہ‘‘ اور ’’ستان‘‘ کا مرکب ہے، جس کے معنی ہیں ’’پہاڑوں کی سرزمین‘‘ اور ’’کوہستانی‘‘ اس سے متعلق لوگ، زبان یا زبانیں۔ یہ لفظ افغانستان کے درۂ نور، کنڑ، دیرکوہستان، سوات کوہستان، اباسین کوہستان میں بسنے والی برادریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہی وہ علاقہ ہے جسے بعض مؤرخین نے ’’دردستان‘‘ بھی لکھا ہے اور یہاں کی بولیوں کو "دردی” زبانیں کہا گیا ہے۔ لیکن دردی زبانوں میں کوہستانی زبانیں نمایاں لسانی گروہ ہیں، جو اپنی لسانی خصوصیات کی وجہ سے باقیوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے حیران کن حد تک قریب ہیں۔ مثال کے طور پر ان تمام کوہستانی زبانوں میں چار یا پانچ ایسی آوازیں ہیں جو آس پاس کی پشتو، ہندکو یا گوجری زبانوں میں نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے رسم و رواج، رہن سہن حتیٰ کہ ان کے مزاج میں بھی مماثلت ہے۔ یہ تمام کوہستانی برادریاں نہ صرف یہ کہ خود اپنے آپ کو کوہستانی سے موسوم کرتی ہیں بلکہ آس پاس کے پشتو بولنے والے بھی ان کو بلاتفریق کوہستانی کہتے ہیں۔
البتہ یہی کوہستانی برادریاں خود ایک دوسرے کو، یا ان زبانوں پر کام کرنے والے غیرملکی انہیں کوہستانی کے علاوہ کوئی اور نام دیتے رہے ہیں، تاکہ ایک کوہستانی کا کسی دوسرے کوہستانی سے فرق واضح ہو۔ دیکھا جائے، تو مقامی طور پرافغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان میں بھی کئی زبانیں کوہستانی زبانیں کہلاتی ہیں اور خود بولنے والے بھی۔
چترال کے ارندو میں بولی جانے والی گوارباتی زبان کو آس پاس کے پشتو بولنے والے کوہستانی سے موسوم کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی خود کو کوہستانی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ دیراور سوات کوہستان کی گاؤری، سوات کوہستان کی توروالی، اوشوجو اور انڈس کوہستان کی زبانیں شینا، آباسین کوہستانی، بٹیڑی، گاؤرو اور چیلیسو کوہستانی زبانیں کہلاتی ہیں۔
اگرچہ مشہور انگریزی لغت میریم ویبسٹر کے مطابق ’’شمالی پاکستان کے ہمالیائی لوگوں اور ان کی درد زبانوں کے لیے کوہستانی کا لفظ استعمال ہوتا ہے‘‘ لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہ لفظ پاکستان سے باہر افغانستان میں بھی دور دور تک استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں سوات اور دیر کوہستان تو موجود ہیں لیکن کوہستان کے نام سے ضلع صرف ہزارہ ڈویژن میں ہے، جو انڈس کوہستان یا ہزارہ کوہستان بھی کہلاتا ہے ۔
اسی طرح افغانستان میں ولایت کاپیسا میں کوہستان نام کا ایک ضلع ہے۔ صرف اس ضلع کی وجہ سے نہیں بلکہ شمالی افغانستان کی کئی لسانی اِکائیوں سے متعلق لوگ اپنے آپ کو اپنے علاقے کی مناسبت سے کوہستانی کہتے آئے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں کوہستانی نام اس وقت عالمی میڈیا میں منظر پر آیا، جب دو ہزار پانچ میں حماسہ کوہستانی کے نام سے ایک برطانوی ماڈل خاتون نے شہرت حاصل کی۔ وہ ایک افغانی خاتون تھی جو مس انگلینڈ منتخب ہونے کے بعد عالمی مقابلۂ حسن کے لیے برطانیہ کی طرف سے نامزد ہوگئی۔
اسی طرح افغانی ایتھلیٹ خاتون تہمینہ کوہستانی اورافغانستان سے آسٹریلیا ہجرت کرنے والی صحافی ایلی کوہستانی نے بھی اسی نام سے شہرت حاصل کی۔ حتیٰ کہ نوّے کی دہائی میں افغانستان کے ایک وزیراعظم عبدا لصبور فرید کوہستانی ہوگزرے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو کوہستانی سے موسوم کرنے والوں کا ایک بڑانسلی اور لسانی دائرہ ہے، جو شمالی افغانستان اور پاکستان میں موجود درد زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ہے اور جس کے اندر چھوٹے لسانی دائروں میں پشایی، توروالی، گاؤری، شینا کوہستانی، انڈس کوہستانی اور دیگر دردزبانیں شامل ہیں۔
کوہستانیوں کے بارے میں عام لوگوں کی معلومات نہ صرف ناکافی بلکہ بعض اوقات ناقص بھی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ ان کو گوجر قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، تو بعض کے خیال میں سارے کوہستانی ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ مثال کے طور پر سوات کے پشتو بولنے والوں کا خیال ہے کہ بحرین اور کالام کے کوہستانی شاید ایک ہی زبان بولتے ہوں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بحرین کے کوہستانی کالام کے کوہستانیوں کے ساتھ بات کرنے کے لیے پشتو کا سہارا لیتے ہیں۔
اسی طرح انڈس کوہستان میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے کوہستانی مشرقی کنارے کے کوہستانیوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں۔
سوات اور دیگر علاقوں کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لوگ شاید کہیں اور سے آکر یہاں آباد ہوئے ہوں گے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ ان علاقوں کے قدیم ترین باشندے ہیں۔ کسی بھی تاریخ دان کے نزدیک ان سے قدیم تر کوئی قوم یہاں آباد نہیں رہی ہے۔ بلکہ بعض محققین کے خیال میں کوہستانی علاقوں سے ملحق علاقوں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کوہستانیوں کی ہے، جنہوں نے اپنی زبان ترک کرکے پشتو، ہندکو یا کسی اور زبان کو اپنایا ہواہے۔ کوہستانی نام پاکستان کی متنوع لسانی اکائیوں میں سے ایک قابل شناخت اکائی بن سکتا ہے، جو پہاڑی علاقوں کی مناسبت سے متنوع کوہستانی برادریوں کے لیے مشترک نام ہوسکتا ہے۔ اور جو ان کی عددی کمی کا اِزالہ کرسکتا ہے۔ دیگرلسانی اکائیوں کے درمیان ان کے سیاسی قدکاٹھ اور عددی حجم میں اضافہ کرسکتا ہے اور دردی زبانوں کی کوہستانی شاخ بولنے والوں میں نسلی، لسانی اور ثقافتی قربت بھی بڑھاسکتا ہے۔
ان کی آپس کی یہ قربت کسی کے خلاف نہیں بلکہ اپنی شناخت کے لیے ہوگی، جو باہمی تنازعات اور مناقشوں کے مقابلے میں سراسر باعث خیر و برکت ہوگی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اپنی انفرادی لسانی شناخت کو ختم کئے بغیر کیسے’’وسیع ترکوہستانی شناخت‘‘ کو اجاگر کیا جائے؟ کیسے ایک ہی نسلی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں یکجہتی پیدا کی جائے جو کئی ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں اور جن کی قابل ذکرسیاسی حیثیت نہیں رہی ہے؟ کیسے اس مشترک شناخت کو ان کی قوت میں تبدیل کیا جائے جو ان میں اتفاق و اتحادکو فروغ دے اور ان کو درپیش مشترک مسائل کے حل میں معاوِن ہو؟