گذشتہ روز پنجاب اسمبلی کے اندر اپوزیشن اراکین نے جو توڑ پھوڑ کی…… اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حصولِ اقتدار کی خاطر یہ ہر چیز کو تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ وہی اراکین ہیں جو گذشتہ 4 سال سے اسمبلی صرف اس لیے آتے تھے کہ حاضری رجسٹر پر ان کے دستخط ہو جائیں، تاکہ وہ اپنی پوری تنخواہ اور مراعات حاصل کرسکیں۔
اسمبلی ان اراکین کا گھر ہے اور یہ اپنے ہاتھوں سے اسے تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ کے اندر کرسیاں، میزیں اور شیشے جس طرح توڑے گئے…… اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے دشمن ملک نے حملہ کرکے تباہی اور بربادی پھیلا دی ہو۔ ویڈیو فوٹیج میں صاف نظر آرہا ہے کہ اپنے ہی گھر میں دہشت گردی کرنے والے کون لوگ ہیں؟ یہ قانون ساز ادارہ ہے اور ان میں سے بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو قانون کی الف بے سے بھی واقف ہوں گے۔ یہ افراد اپنا حق بھی دو نمبری سے حاصل کرتے ہیں۔
گذشتہ دنوں سابق گورنر چوہدری سرور اور پی ٹی آئی کے منحرف رکن علیم خان نے جو باتیں کیں، وہ بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان سے کروائی گئیں۔ ایک طرف قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے۔ کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، تو دوسری طرف اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو اب خامیاں نظر آنا شروع ہوگئیں۔ کروڑوں روپے الیکشن میں جھونک کر ووٹ خریدنے والے اسمبلی میں صرف اس لیے آتے ہیں کہ انہیں بھی وزیرِ اعلا بنایا جائے۔
جب مفادات پورے نہیں ہوتے، تو پھر یہ افراد قانون کا سہارا لے کر قانون کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سب کی غیرت اس وقت جاگی…… جب عمران خان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے…… اور اس کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچنے والے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے ان اندھے، بہرے اور مفاد پرست لوٹوں کے لیے ایک خوب صورت مثال کہ ’’قانون ہوتا کیا ہے……!‘‘
قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالب کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا…… اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ طالب علم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی…… مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مصر رہا۔ طالب علم شکستہ دلی سے اور غم زدہ باہر تو نکل گیا…… مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھا۔ حیرت باقی طلبہ پر تھی…… جو سر جھکائے خاموش بیٹھے تھے۔
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلبہ سے پوچھا…… قانون کیوں وضع کیے جاتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’’لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کے لیے۔‘‘
دوسرے طالب علم نے کہا: ’’معاشرے پر لاگو کرنے کے لیے۔‘‘
تیسرے نے کہا: ’’تاکہ کوئی طاقت ور کم زور پر زیادتی نہ کرسکے۔‘‘
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد کہا، یہ سب جوابات ٹھیک تو ہیں…… مگر کافی نہیں۔ ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا: ’’تاکہ عدل و انصاف قایم کیا جاسکے۔‘‘
استاد نے کہا، جی بالکل! یہی جواب ہے، جو مَیں سننا چاہتا تھا، تاکہ عدل کو غالب کیا جاسکے۔ استاد نے پھر پوچھا، لیکن عدل اور انصاف کا کیا فایدہ ہوتا ہے؟ ایک طالب علم نے جواب دیا: ’’تاکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جاسکے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے۔‘‘ اس بار استاد نے ایک توقف کے بعد کہا، اچھا مجھ سے ڈرے بغیر اور بلا جھجھک میری ایک بات کا جواب دو۔ کیا مَیں نے تمہارے ساتھی طالب علم کو کلاس روم سے نکال کر کوئی ظلم یا زیادتی کی ہے؟ سارے طلبا نے بیک زبان جواب دیا، جی ہاں سر! آپ نے زیادتی کی ہے۔ اس بار استاد نے غصے سے اُونچا بولتے ہوئے کہا، ٹھیک ہے کہ ظلم ہوا ہے پھر تم سب خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ کیا فایدہ ایسے قوانین کا جن کے نفاذ کے لیے کسی کے اندر ہمت اور جرات ہی نہ ہو؟ جب تمہارے ساتھی طالب علم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی…… اور تم اس پر خاموش بیٹھے تھے…… اس کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ تم اپنی انسانیت کھوئے بیٹھے تھے۔ یاد رکھو! جب انسانیت گرتی ہے، تو اس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔ اس کے ساتھ ہی استاد نے کمرے سے باہر کھڑے ہوئے طالب علم کو واپس اندر بلایا۔ سب کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی اور باقی طلبہ کی طرف اپنا رُخ کرتے ہوئے کہا: ’’یہی تمہارا آج کا سبق ہے اور جاؤ…… جاکر معاشرے میں ایسی ناانصافیاں تلاش کرو اور ان کی اصلاح کے لیے قانون نافذ کرانے کے طریقے سوچو۔‘‘
قارئین! کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اپنے حق کے لیے کیسے ڈٹ کر مقابلہ کیا جاتا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں سوچا۔ ہم اپنا حق نہیں لے سکتے، تو دوسرے کا حق کیسے دلا سکتے ہیں؟ ہمیں سب کو بخوبی معلوم ہے کہ عمران خان بھاگا نہیں…… وہ وہیل چیئر پر نہیں بیٹھا…… ہسپتال داخل نہیں ہوا…… ایم این اے نہیں خریدے…… بھاگا تو لندن دوائی والا ہے، بھاگا تو زرداری وہیل چیئر والا تھا…… بھاگا تو شرجیل میمن تھا…… بھاگا تو شہباز شریف تھا…… بھاگا تو الطاف حسین تھا……!
ایک بات طے ہے کہ عمران خان بھاگے گا نہیں۔ وہ لڑے گا یا مرے گا…… بھاگنے والا آپشن اس کی کتاب میں ہے ہی نہیں۔ اسمبلی تحلیل کا مطلب ہے کہ مَیں تمہیں عوام کے فیصلے اور آئین کے بر خلاف سازش نہیں کرنے دوں گا۔ جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دوں گا۔ غیر ملکی سازش کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔ اب الیکشن ہوگا۔ فیصلہ عوام کی عدالت میں ہو گا، تم بھی عوام کے پاس جاؤ۔ مَیں بھی عوام کے پاس جاتا ہوں۔ عوام فیصلہ کریں گے کہ یہ ملک کس کا ہے؟ غلاموں کا…… یا محبِ وطن پاکستانیوں کا……! عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ بھکاری ہیں یا خود دار و غیرت مند……! عوام اپوزیشن کی لگی ہوئی منڈی میں اپنے نمایندوں کی خرید و فروخت دیکھ رہے ہیں…… اور تاجروں والا چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ اب فیصلہ پھر عوام نے کرنا ہے…… اس لیے الیکشن کی تیاری کریں۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔