امتِ مسلمہ کے لیے رمضان المبارک اَن مول نعمت، رحمتوں، برکتوں کا مہینا اور بخشش کا خزینہ ہے۔ اس نیکیوں کے موسمِ بہار میں اللہ تعالا کی طرف سے نیکی کا اجر 70 درجے تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ شیاطین قید کردیے جاتے ہیں…… اور لوگوں میں جذبۂ ایمان بڑھ جاتا ہے جس سے مساجد آباد ہوتی ہیں۔
یہ مہینا جہاں اہلِ ایمان کے لیے جنت کی نوید ہے…… وہاں گنہگاروں کے لیے اپنے گناہ بخشوانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمارے لیے انتہائی سعادت کی بات ہے کہ ایک بار پھر ہمیں ماہِ رمضان کی مبارک ساعتیں نصیب ہو رہی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہِ مبارک سے بھرپور فایدہ اٹھائیں۔ اس کے ایام کو قیمتی بنانے کے لیے پلاننگ کریں۔ روزہ کی پابندی، نمازِ باجماعت کا اہتمام، تراویح میں قرآن کریم کا سننا، نوافل کی کثرت، مسنون اعمال اور قرآنِ کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں، تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول ممکن ہوسکے…… اور بری عادات سے بچیں، حسد، کینہ، بغض سمیت تمام برائیوں کو ترک کرنے پر خوب غور و فکرکریں۔ اس مہینے کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس کے دن بھی بابرکت ہیں…… اور اس کی راتیں بھی پُرنور ہیں۔ اس لیے اس مہینے کے داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ انسان ہر طرح کے شرور و فتن سے آزاد ہو کر خالصتاً عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوجاتا ہے۔ روزہ کی حالت میں خوفِ الٰہی کے باعث بھوک اور پیاس میں بھی کھانے پینے کی چیزوں (جو کہ عام ایام میں حلال بھی ہیں) کے پاس جانے سے باز و ممنوع رہتا ہے۔
اللہ تعالا نے اس مبارک مہینے میں قرآنِ مجید جیسی عظیم المرتبت کتاب نازل فرمائی جو تمام بنی نوع انسان کے لیے آسمانی ہدایت و رہنمائی کاذریعہ ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان عہد کر لے کہ اپنی زبان سے نہ جھوٹ بولے گا…… نہ چغلی اور نہ غیبت کرے گا۔ کسی کو گالی نہیں دے گا…… اور نہ ہی کسی کو دکھ درد پہنچائے گا…… جب کہ غریبوں کے کام آئے گا اور مسکینوں کا ولی بنے لگا۔
اس ماہِ مبارک کے روزے رکھنا تمام مسلمان عاقل اور بالغ مسلمانوں پر فرض ہیں…… جس کا بدلہ اللہ تعالا نے خود اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔
روزے کی فرضیت کا بنیادی مقصد تقوا کا حصول ہے۔ انسانی جبلت میں بھوک کا انتہائی اہم مقام ہے…… اگر انسان اپنی صنفی خواہشات پر قابوپانے میں کامیاب ہوجائے، تو انسان اپنی تمام خواہشات پر قابو پاسکتا ہے۔
امتِ مسلمہ کو اللہ تعالا کی رضا کے لیے بھوک اورپیاس برداشت کرنے کے عوض دنیا و آخرت کی بے شمار روحانی اور مادی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے۔ ہمارے لیے خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے مہینے میں کثرت کے ساتھ قرآنِ کریم کی تلاوت، دعا، استغفار، صدقہ و خیرات، اعتکاف اور لیلۃ القدر کو پانے کی جستجو کرتے تھے۔
رمضان المبارک کا مقصد قرآن نے یہ بیان کیاہے کہ اس کے روزوں سے انسان متقی بن جائے۔ متقی انسان وہ ہوتا ہے…… جو حقوق اللہ کو بھی پوری نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ادا کرتا ہے…… اور حقوق العباد کی ادائی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ اس مبارک مہینے میں نیکو کاروں کے لیے سانس لینا بھی تسبیح اور سونا بھی عبادت ہے۔
اس مہینے میں کیے جانے والے اعمال مقبول…… اور دعائیں مستجاب ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو اس مہینے میں سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ اللہ تعالا سے سوال کرنا چاہیے کہ ہمیں اس مہینے کے باقی روزے رکھنے اور قرآنِ پاک کی کثرت سے تلاوت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ کیوں کہ بڑا بدبخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفرانِ الٰہی سے محروم رہا۔
اس مہینے میں روزے کی وجہ سے جو پیاس اور بھوک لگتی ہے…… اس سے قیامت کے دن کی پیاس اور بھوک کو یاد کرنا چاہیے۔ غریب اور تنگ دست لوگوں کو صدقہ دینا، بزرگوں کا احترام کرنا، چھوٹوں پر رحم کرنا اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا، اپنی زبانوں کو ہر قسم کی برائی سے بچانا…… اور اپنی نگاہوں کو ان چیزوں کی طرف دیکھنے سے بچانا چاہیے جنہیں دیکھنا جائز نہیں…… اور اپنے کانوں کو ایسی آوازوں سے بچاناکہ جنہیں سننا حرام ہے…… اور لوگوں کے یتیم بچوں سے ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرناچاہیے۔ اس ماہِ مبارک میں روزہ دار کو اِفطارکروانے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی اس مہینے میں کسی مو من روزہ دار کو افطار دے، تو خدا وند تعالا اس کو اپنی راہ میں ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب، اور اس کے تمام گذشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا اور نیک کرے گا، تو وہ آسانی سے پل صراط عبور کرے گا…… اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے ماتحت سے نرمی کرے گا، تو خدا وندِ تعالا قیامت کے دن اس کے حساب میں نرمی فرمائے گا اوراگر کوئی اس مہینے میں دوسروں کو اپنی اذیت سے بچاتا رہے گا، تو قیامت کے دن اللہ تعالا اس کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے گا۔ اور اگر کوئی اس مہینے میں کسی یتیم پر احسان کرے گا، تو اللہ تعالا قیامت کے دن اس پر احسان کرے گا۔ اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے گا، تو اللہ تعالا قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے متصل کرے گا، جو کوئی اس مہینے میں مستحب نماز بجالائے گا، تواللہ تعالا اس کو جہنم سے نجات دے گا اور جو کوئی اس مہینے میں ایک واجب نماز پڑھے گا، تو اللہ تعالا اس کے لیے دوسرے مہینوں میں 70 نمازیں پڑھنے کا ثواب دے گا۔ اے لوگو! یقینا اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر بند نہ کرے، اور جہنم کے دروازے اس مہینے میں بند کردیے گئے ہیں، اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ تمہارے لیے ان کو نہ کھولے، اور شیاطین اس مہینے میں باندھے گئے ہیں، اپنے ربّ سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے۔‘‘
قارئین! ہمیں ان مبارک ایام میں فرایض کی ادائی کے ساتھ ساتھ نوافل اور مسنون اذکار و تسبیحات کا بھی خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ ’’لا الٰہ الاللہ‘‘ اوراستغفار کی کثرت کرنا چاہیے۔ ان مبارک ایام کو قیمتی بنانا چاہیے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں اور رحمتوں کو سمیٹنا چاہیے۔
جاتے جاتے بارگاہِ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ تعالا ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے…… اور ہمارا شمار اپنے مقرب بندوں میں فرماکر ہمیں دونوں جہانوں کی کامیابی عطا فرمائے، آمین!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔