وزیرِ اعظم سے ملکی تحفظ زیادہ ضروری ہے

عمران خان وزیرِ اعظم رہتا ہے یا نہیں؟
اپوزیشن کے ہاتھ کچھ آئے گا یا اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ہوجائے گا؟
اتحادی پارٹیاں اپنے تئیں فیصلہ کرپائیں گی…… یا ’’اشارے کے عادی‘‘ اشارے کے منتظر رہیں گے؟
یہ سب کچھ چند دنوں بعد واضح ہوجائے گا۔ صف بندیاں مکمل ہیں۔ عمران اور عمران مخالف قوتوں کے دعوے اور وعدے جاری ہیں۔ بیانات کا سلسلہ ہے کہ رک ہی نہیں رہا۔ ملک میں ایک خاص ماحول بنا ہوا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ قوم کو باقی کوئی مسئلہ لاحق ہی نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے تو ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا رکھا ہے۔ اداکاری زوروں پر ہے…… مگر کچھ ہی دنوں بعد پردہ گرنے کو ہے۔ پھر سب کچھ، ہاں سب کچھ واضح ہوجائے گا کہ کون جیتا کون ہارا؟ کس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور کس نے کس کو دھوکا دیا؟ بہرحال ابھی تک جو صورتِ حال ہے، اس سے یہ مفروضہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زرداری ہمیشہ کی طرح بھاری پڑنے والے ہیں…… مگر اس بار فرق صرف یہ ہے کہ مخالف فریق نہیں بلکہ اپنی صفوں پر۔
واضح طور پر کہا جائے، تو زرداری صاحب، نواز شریف اور مولانا کے ساتھ ہاتھ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح یہ اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ خود مولانا، زرداری اور نواز شریف کو دیوار سے لگانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ جیسا کہ پانامہ کیس کے دوران میں اور مابعد محترم مولانا نے تھپکی دے کر نواز شریف کو مقتدرہ مخالف بیانیہ اپنانے پر اُکسایا تھا۔ پھر پورے پاکستان نے دیکھا کہ اسی بیانیے کی وجہ سے نواز شریف نہ صرف بیٹی اور داماد سمیت جیل گئے بلکہ بعد میں مبینہ’’ڈیل‘‘ کرکے ہی ملک سے باہر گئے۔
یہ مفروضہ اور اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ پاکستانی سیاست کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب کیا ہونے والا ہے یا ہوسکتا ہے؟ ایسے میں عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام…… ایک کام تو کم از کم ہوا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں حرکت میں ہیں…… جس کی وجہ سے ملکی سیاست میں کچھ رمق پیدا ہوگئی ہے، لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ جنہوں نے اپوزیشن کے ہاتھوں عدمِ اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے، وہ کامیاب ٹھہرے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف انہوں نے وزیرِ اعظم کو کم زور کردیا ہے…… بلکہ ممبرانِ اسمبلی اور اتحادیوں سے ملنے پر بھی مجور کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’وہ‘‘ عمران خان کی غرور اور انانیت کو مات دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب جب عمران خان اپنی کرسی بچانے میں مصروف ہیں، تو ’’وہ‘‘ جو کرنا چاہیے، کروا سکتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کو بھی اپنے دام میں گھیر لیا گیا ہے۔ ’’ہم نیوٹرل ہیں‘‘ کا کہہ کر اپوزیشن کو ایسا دانا ڈالا گیا ہے کہ جس کو کھانے کے لیے سب اگلے قدموں پر کھیل رہے ہیں۔ کھلے عام خرید و فروخت کے الزامات لگ رہے ہیں…… لیکن سب سے بڑھ کر ابھی تک محترم نواز شریف اور مریم نواز نے اداروں کے خلاف ایک ٹویٹ تک نہیں کیا۔ اب ایسے میں وزیرِاعظم رہے نہ رہے…… ’’وہ‘‘ کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر عدمِ اعتماد ناکام ہوجاتی ہے، تو اپوزیشن کے ساتھ یہ کہنے کا جواز نہیں رہے گا کہ کسی کے ’’فیض‘‘ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ اگر کامیاب ہوجاتی ہے، تو عمران خان کے احتجاجی مزاج کے سامنے مخلوط حکومت کتنے دن چلی گی؟ یہ بھی اپوزیشن کو دیکھنا ہوگا۔
میرے خیال کے مطابق ’’سیاست‘‘ سے اہم اس وقت ملکی تحفظ ہے۔ کیوں کہ بھارت نے سرحد پر فوج جمع کر رکھی ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک بھارتی ’’براہموس میزایل‘‘ بھی پاکستانی علاقے میاں چنوں میں گرا تھا…… جس کو اگرچہ بھارت نے غلطی تسلیم کرلیا ہے مگر پاکستان اس موقف سے مطمئن نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ کیوں کہ یہ غلطی اتنی سنگین ہے کہ اس کے ضمن میں دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ اسی طرح ملک کے اندر دہشت گردی کے ’’خطرات‘‘ بڑھ چکے ہیں اور سانحۂ پشاور کے بعد اب بلوچستان میں سیکورٹی ’’ہائی الرٹ‘‘ ہے۔
یہی وقت ہے سیاست دان ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ ملکی مفاد میں فیصلہ کریں۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔