’’اچار‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’آچار‘‘ لکھا جاتا ہے۔
نوراللغات کے مطابق اچار کے معنی ہیں: ’’سِرکے یا تیل یا لیمو کے عرق میں آم اور بعض پھل نمک مرچ وغیرہ کے ساتھ ڈال کر مختلف ترکیبوں سے بناتے ہیں۔ شلجم، گاجر اور مولی کا اچار پانی میں ڈال کر بنایا جاتا ہے۔‘‘
علمی اُردو لغت (متوسط) کے مطابق ’’اچار‘‘ ہندی کا لفظ ہے جب کہ ’’آچار‘‘ فارسی کا۔
مولوی نور الحسن نیر نے نوراللغات میں بھی ’’آچار‘‘ کو فارسی ہی کا لفظ درج کیا ہے جب کہ اس کے آگے اور پیچھے تمام الفاظ کو ہندی درج کیا ہے۔ نیز ’’اچار‘‘ کے ذیل میں تمام محاورات (اچار اٹھنا، اچار بنانا، اچار پڑنا، اچار ڈالنا، اچار کردینا، اچارنکال دینا، اچار نکلنا) درج ہیں۔ ایک بھی محاورہ ’’آچار‘‘ کے ذیل میں درج نہیں۔
اس حوالے سے رشید حسن خان اپنی تحقیقی کتاب ’’زبان اور قواعد‘‘ (مطبوعہ زبیر بُکس، سنہ اشاعت درج نہیں) کے صفحہ نمبر 195 اور 196 پر رقم کرتے ہیں: ’’اچار: آصفیہ میں اس کو ’’آچار‘‘ لکھا گیا ہے اور ’’اچار‘‘ کو عوام سے متعلق کیا گیا ہے۔ ’’آچار بنانا، آچار ڈالنا، آچار کرنا، آچاری‘‘ سب کو الفِ ممدودہ کے ساتھ ہی لکھا گیا ہے۔ اُردو میں ’’اچار‘‘ بولا اور لکھا جاتا ہے اور اُردو کے لحاظ سے یہی صورت صحیح اور فصیح ہے۔ ’’آچار‘‘ کو فارسی سے مخصوص قرار دینا چاہیے۔
سید ضمیر جعفری کی شہرہ آفاق مِزاحیہ نظم ’’تھرڈ ڈویژن‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ ہو، جو ایک طرح سے ’’اچار‘‘ کے املا پر مہرِتصدیق ثبت کرتا ہے…… شعر ملاحظہ ہو:
پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے
ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے