ڈاکٹر محمود احمد کاوِش الرحیم گارڈن، ناروال سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے ایم فل اُردو مقالے کا عنوان ’’طفیل ہوشیار پوری حیات اور ادبی خدمات ‘‘ہے جب کہ انھوں نے ’’مشفق خواجہ احوال و آثار‘‘لکھ کر اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔
ڈاکٹر صاحب پہلے پہل ’’ایچی سن کالج لاہور‘‘ میں خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد میں ’’پبلک سروس کمیشن‘‘ کے ذریعے منتخب ہوکر مختلف تعلیمی اداروں میں فرایض احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب فی الوقت ’’قاید اعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ نارووال‘‘ میں سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد کاوِش کی دو کتابیں ’’تیرے خوشبو میں بسے خط‘‘ (شاعری) اور ’’قافلے اُجالوں کے‘‘ (شخصی خاکے) مجھے بریگیڈئیر (ر) خالد نذیر (ستارۂ جرات، ستارۂ امتیاز، ملٹری) پرنسپل کیڈٹ کالج سوات کے توسط سے ملیں۔
کتاب ’’تیرے خوشبو میں بسے خط‘‘ انتخابِ کلامِ راجندر ناتھ رہبرؔ ہے…… جس میں ڈاکٹر صاحب نے ان کے غیر مطبوعہ اور غیر مدون کلام بھی شامل کیے ہیں۔
راجندر ناتھ رہبرؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ 5 نومبر 1931ء کو شکر گڑھ میں پیدا ہوئے۔ اس شعری مجموعے کے علاوہ ان کے 3 شعری مجموعے’’کلس‘‘، ’’زیبِ سخن‘‘ اور ’’یاد آؤں گا‘‘ منظرِعام پر آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے 2 مجموعے ’’ملہار‘‘ اور ’’اور شام ڈھل گئی‘‘دیوناگری رسم الخط میں شایع ہوچکے ہیں ۔
رہبرؔ نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس شعری مجموعے میں ان کے بارے میں تفصیلاً لکھا ہے جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ رہبرؔکا تخلیقی سفر 70 سال پر محیط ہے۔ دوسروں کے کلام کی اصلاح بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اپنے بیان میں ڈاکٹر صاحب کتاب کے صفحہ 31 پر رہبر ؔ کا یہ شعر بطور ِ نمونہ پیش کرتے ہیں کہ پرانے لوگ کس طرح کدورت سے پاک تھے ۔
رکھتے تھے دِلوں میں نہ تعصب نہ کدورت
کس شان کے تھے لوگ مزے دار پرانے
ڈاکٹر محمود احمد کاوِشؔ کی شکر گڑھ سے رہبرؔ کے کلام کا انتخاب کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ واقعی رہبر ؔ کے کلام میں مقناطیسی قوت پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام میں ہندی الفاظ بکثرت استعمال ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف تلمیحات بھی موجود ہیں۔ کتاب کے سر ورق پر یہ خوب صورت اشعار ملاحظہ ہوں:
تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے
پیار میں ڈوبے ہوئے خط میں جلاتا کیسے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
ڈاکٹر صاحب کی دوسری کتاب ’’قافلے اُجالوں کے ‘‘ ہے…… جو شخصی خاکوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ایسی شخصیات کا انتخاب کیا ہے…… جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ واقعی وہ سراہنے کے قابل ہیں۔
ان شخصیات میں ایک خاکہ ’’دو نیم اِن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا‘‘ہے۔ یہ خاکہ بریگیڈئیر (ر) خالد نذیر (موجودہ پرنسپل کیڈٹ کالج سوات) کا ہے…… جس میں ڈاکٹر صاحب نے بریگیڈئیر صاحب کے حال احوال لکھے ہیں۔ خاص کر بریگیڈئیر صاحب کی سپاہیانہ زندگی میں اہم کارناموں کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ نیز خالد نذیر صاحب کی تحریروں کے بارے میں بھی کافی معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
’’بریگیڈئیر خالد نذیر قلم کے بھی دھنی ہیں ۔ انگریزی اور اُردو زبانوں میں لکھنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ کارگل کے شہدا اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے انہوں نے ’’وطن کی مٹی گواہ رہنا ‘‘ کے عنوان سے ایک پُرتاثیر مضمون لکھا۔
ڈاکٹر محمود احمد کاوِش نے اس کتاب میں 21 مختلف شخصیات کی زندگی سے متعلق لکھا ہے…… جسے جتنا بھی سرا ہا جائے، کم ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے الفاظ کا ایسا چناؤ کیا ہے…… جو قاری کے ذہن کو جلا بخشتا ہے۔ آپ نے بڑی جاں فشانی اور جستجو سے لکھا ہے…… اور تقریباً ہر شخصی خاکے میں دل کھول کر لکھا ہے۔
بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے خاکہ نگاری باآسانی سیکھی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد کاوش کی زیرِ تبصرہ کتب کی تصویر۔ (تصویر: محمد طاہر بوستان خیل)

ڈاکٹر صاحب کی تنقید کا انداز بھی بے نظیر ہے۔ 184 صفحات کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری کبھی بوریت محسوس نہیں کرے گا۔ اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹر صاحب کا منفرد اندازِ بیاں ہے۔ انھوں نے اختصار سے کام لیاہے ۔
قارئین، خاکہ نگاری ایک مشکل فن ہے…… مگر ڈاکٹر صاحب نے کانٹوں سے دامن بچا کر لکھا اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر شعبۂ تاریخِ اسلامی، جامعہ کراچی) کہتے ہیں: ’’ڈاکٹر محمود احمد کاوِش نے ہر ممدوح کی ایسی تصویر کشی کی ہے…… گویا اُسے مجسم کردیا ہے۔ جو رخصت ہوگئے ہیں، انہیں ان صفحات میں زندہ کر دیا ہے۔ صرف شخصیت ہی کو مجسم اور زندہ نہیں کیا…… بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ عصری تہذیب کو بھی حیاتِ تازہ عطا کر دی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب خود انتہائی قدر دان اور مہربان انسان ہیں۔ اس لیے انہوں نے جن شخصیات کے خاکے لکھے ہیں…… ان میں بھی انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری دکھائی دیتی ہے۔
ان دونوں کتابوں کے لیے ڈاکٹرمحمود احمد کاوِش خصوصی شکریے کے مستحق ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالا ڈاکٹر صاحب کو ادب کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے…… آمین!
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔