محترم برخوردار فضل ربی راہیؔ نے 8 دسمبر 2021ء کو شائع شدہ میرے کالم ’’ہمارے لکھاری اور تاریخ (2)‘‘ کے حوالے سے عجلت کے عالم میں تحریر کیے گئے اپنے کالم بہ عنوان ’’کیا کسی مؤرخ کو خدائی فوج دار بننا زیب دیتا ہے؟‘‘ میں ان دو نِکات پر، جن تک مَیں نے اپنے کالم کو محدود کیے رکھا تھا، اپنا جواب یا ردِ عمل دینے کی بہ جائے سورج کو چراغ دکھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ جوابی تحریر ان کا حق ہے۔ تاہم اگر برخوردار میں بنیادی نکتے کے حوالے سے یا موضوع کے مطابق ہی لکھنے کی صلاحیت کی کمی تھی، تو لکھنے سے اجتناب کرتے…… یا جن دو نِکات تک مَیں نے اپنی تحریر کو محدود کیے رکھا تھا، اپنی تحریر کو ان تک ہی محدود رکھتے، تو کیا بہتر ہوتا! نیز اگر ان نِکات کے حوالے سے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں تھی، تو ایسی صورت میں اپنی غلطی تسلیم کرتے…… یا خاموش ہی رہتے، تو میرے نزدیک یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔ اس لیے کہ اس صورت میں ان کی ساکھ یہ کہہ کر محفوظ ہی رہتی کہ مَیں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور یا مذکورہ کالم نگار میرے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے احتراماً جوابی تحریر سے گریز کیا۔
برخوردار کو اس نوعیت کی تحریروں کے ضمن میں سمجھانے کے لیے مَیں نے جتنا وقت دیا ہے…… اتنا وقت مَیں نے اپنے بچوں کو بھی نہیں دیا۔ ان پر متعدد بار یہ بات واضح بھی کی ہے کہ مَیں کیوں آپ کو یہ وقت دے رہا ہوں اور آپ کے سمجھانے کی یہ کوشش کرتا ہوں؟ یہ باتیں مَیں نے ان سے خلوت میں بھی کی ہیں اور فضل مولا خان جی اور امجد علی سحابؔ کی موجودگی میں بھی۔
برخوردار کو اگر یاد ہو، تو وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مَیں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا اور آئندہ کے لیے اپنی تحاریر میں محتاط رہوں گا۔ لیکن اب وہ میری ان باتوں کو ذاتی بغض، حسد، عناد اور تعصب پر مبنی قرار دے رہے ہیں…… جو اُن کے لیے (بہ زعمِ خویش) ان کا حق ہے۔ تاہم میں اس بات پر اللہ تعالا کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ میرا کسی بھی فرد سے کوئی ذاتی بغض، حسد، عناد اور تعصب نہیں۔
میرے طرزِ تحریر پر انگلی اٹھاتے ہوئے برخوردار فضل ربی راؔہی رقم طراز ہیں کہ ’’تنقید خواہ ادبی ہو یا تاریخ کی کسی درستی کے حوالے سے ہو، انداز مہذبانہ، شائستہ اور ادبی دائرے کے اندر ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب میرے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر مجھے ان کا احترام ملحوظِ خاطر نہ ہوتا، تو مَیں ان کی تنقید کا جواب بھی اسی اُسلوب میں دیتا لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ اگر قارئین ان کی تحریر کا ایک بار پھر اس نقطۂ نظر سے جائزہ لیں، تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ برخوردار نے کس اُسلوب میں جواب دیا ہے اور کس حد تک انہوں نے اپنے استاد کا درجہ رکھنے والے کے لیے احترام ملحوظِ خاطر رکھا ہے؟
برخوردار کی اصل موضوع پر لکھنے کی بہ جائے اِدھر اُدھر کی ہانکنا، صاحبانِ بصیرت کے لیے کافی ہے کہ ان کے پاس بہ طورِ مترجم کتاب میں تحریر کردہ اپنی بے سر و پا باتوں کے سچ ثابت کرنے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں اور انھوں نے خود ہی کسی حد تک اپنے تحریر کردہ زیرِ بحث نِکات پر اپنی باتوں کے غلط ہونے کا نیم دلانہ اعتراف بھی کیا ہے…… لیکن ساتھ ساتھ ان کے دفاع کی ناکام کوشش بھی کی ہے۔ اپنی باتوں کو سچ ثابت کرنے کی کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے موضوع سے ہٹ کر طویل تحریر کا مقصد شاید یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے پڑھنے والوں کی ہمدردی حاصل ہوجائے اور جو غلط باتیں وہ دایرۂ تحریر میں لائے ہیں…… شاید وہ ان باتوں میں دب کر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔ تاہم پشتو کی ایک کہاوت کا مفہوم ہے: ’’ریح کی آواز کھانسنے سے نہیں دب سکتی۔‘‘ اس طرح پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ
پہ زان د گوتی گزار نہ وڑی
پہ جانان تورہ بریخوی چی در یی وڑمہ
یعنی اپنی ذات پر انگلی اٹھنا بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور محبوب کو تلوار دکھا کر کہتا ہے کہ مَیں وار کرنے آرہا ہوں، اس کے سہنے کے لیے تیار رہو۔
شاید برخوردار فضل ربی راہیؔ کی اس ہرزہ سرائی کو نظر انداز ہی کیا جاتا، اس لیے کہ ایسی لایعنی باتوں کا جواب لکھنا اپنے وقت اور توانائی کے ضیاع کے مترادف ہے…… لیکن چوں کہ برخوردار نے کئی ایک ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن کی وضاحت نہ کرنا ڈھیر ساری غلط فہمیوں کو جنم دینے اور انھیں پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے گا۔ لہٰذا ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی خاطر دل پر پتھر رکھ کر کچھ لکھنا پڑ ہی رہا ہے۔ کوشش ہوگی کہ برخوردار نے جن غیر ضروری باتوں کو تحریر کیا ہے، جن کو مَیں نے اپنی پچھلی تحریر میں نہ تو چھیڑا ہے اور نہ ان کا اُس سے کوئی واسطہ ہی ہے، سو ان کو یہاں بھی نہ چھیڑا جائے، تو بہتر ہوگا۔ صرف ان باتوں کی حتی المقدور کم سے کم باتوں میں وضاحت اور ان سوالات کے جوابات دینا میرا مقصد ہے جو قارئین کے لیے ضروری ہیں۔
برخوردار کا پہلا سوال یہ ہے کہ ’’کیا کسی مؤرخ کو خدائی فوج دار بننا زیب دیتا ہے؟‘‘ یہ ایک طرح سے ان کے کالم کا عنوان بھی ہے۔ برخوردار کے اس سوال کا جواب ہے کہ مؤرخ کا کام خدائی فوج دار بننا ہی ہے۔ تاہم شاید ان کی تسلی کے لیے یہ کافی نہ ہو۔ اس لیے عرض ہے کہ مؤرخ اگر خدائی فوج دار نہ ہو، تو وہ لکھاری تو ہوسکتا ہے لیکن مؤرخ کبھی نہیں۔ شاید برخوردار کو یہ دوبارہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ مَیں مؤرخ نہیں بلکہ تاریخ کا محقق اور نقاد ہوں۔ محقق اور نقاد اگر مؤرخ سے بھی زیادہ خدائی فوج دارنہ بنے، تو وہ سرے سے محقق اور نقاد ہی نہیں۔ اگر برخودار اس کو اپنی شان میں گستاخی نہ سمجھے، تو کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ ان کے خیال میں مؤرخ کو صرف اُن کے اور اُن کے ممدوحین کے ضمن میں خدائی فوج دار بننا زیب نہیں دیتا…… یا یہ ایک اصول ہے؟
اگر اُن کی نظر میں ایسا اصولی طور پر ٹھیک نہیں، تو یہ بات انھیں میرے کالم ’’راہیؔ اور طعنے‘‘ کے وقت کیوں یاد نہیں آئی اور مجھ سے یہی سوال اس وقت کیوں نہ کیا؟ اس وقت تو اُن کا طرزِ عمل کچھ اور ہی تھا۔ اُس وقت جب وہ انگلینڈ سے واپس آئے، تو نہ صرف مجھ سے اس کالم کی کاپی کا تقاضا کیا…… بلکہ جب مَیں نے اس کی کاپی دے دی، تو اسے اتنی سرعت سے دُکان کی میز کے دراز میں ڈال کر محفوظ کیا جیسے کوئی اُسی لمحے اُس پر جھپٹ کر اُسے چھیننے ہی جا رہا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جس ویب سائٹ یعنی ’’زما سوات ڈاٹ کام‘‘ پر وہ کالم آن لائن شائع ہوا تھا، اُس کے اُس وقت کے ایڈمن کے بارے میں کہا کہ وہ اچھا بندہ نہیں…… بلکہ خبثِ باطن کا شکار ہے اور مجھ سے ذاتی عداوت کی وجہ سے اس کالم کو ویب سائٹ کے آرکایوز سے ہٹا دیا ہے۔
امید ہے کہ قارئین جان گئے ہوں گے کہ برخوردارکے لیے اچھائی اور برائی کا پیمانہ کیا ہے؟ اور یہ بھی کہ انھیں ہر وہ اقدام جو اُن کے مفاد میں نہ ہو، ذاتی عداوت، نفرت، بغض، عناد، تعصب، منفی ذہنیت اور خبثِ باطن جیسے پہلوؤں کا حامل نظر آتا ہے۔ میرے اُس کالم یعنی ’’راہیؔ اور طعنے‘‘میں تو انہیں میرے ’’خبثِ باطن کا اظہار‘‘ نظر نہیں آیا…… لیکن جب ان کی اپنی تحریر کے ضمن میں لکھا، تو اب انھیں یہ میرے ’’خبثِ باطن کا اظہار‘‘ نظر آرہا ہے۔ کیا خوب……! میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔
میری بات کی تردید میں برخوردار لکھتے ہیں کہ ’’اس بارے میں عرض ہے کہ مَیں نے سواتی معاشرے کی بات نہیں کی ہے۔ مَیں نے عمومی انداز میں پورے پاکستانی معاشرے کی بات کی ہے اور ہر گھر کی کہانی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ واقعتاً ہر گھر میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ مستثنیات کے علاوہ عام طور پر ہر گھر میں کسی نہ کسی حوالے سے خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق انھیں منصفانہ طور پر نہیں دیے جاتے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے اس حوالے سے کچھ مثالوں کے ذریعے اپنی بات کے دفاع کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں مختصراً عرض ہے کہ پورے پاکستان میں سوات بھی شامل ہے۔ برخوردار نے اپنی اُس تحریر میں سواتی معاشرے کے استثنا کی بات کہیں بھی نہیں کی…… بلکہ اپنی ای میل میں میرے اعتراض کے جواب میں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا ہے، اُن میں انھوں نے نہ صرف انھیں سوات ہی سے مخصوص کیا بلکہ سوات کے لوگوں کے ضمن میں جن دوسرے خیالات کا اظہار کیا ہے…… ان کے ذریعے اپنے مؤقف کو مزید تقویت دینے کی ناکام کوشش بھی کی ہے۔ انہوں نے اپنی زیرِ تبصرہ تحریر میں اپنے مؤقف کے ثبوت میں جو مثالیں پیش کی ہیں، وہ بھی استثنائی صورتیں ہی ہیں۔
کیا ایسے ناپسندیدہ اعمال صرف پاکستان اور سوات میں ہوتے ہیں یا مغربی دنیا، جسے بیشتر لوگ مہذب دنیا سمجھتے ہیں، میں بھی یہی صورتِ حال ہے؟ کیا وہاں سے بھی ایسے واقعات اور جنسی ہراسانی وغیرہ کی خبریں نہیں آتیں؟ مثال کے طور پر بی بی سی جیسے معروف ادارے سے وابستہ ایک خاتون صحافی نے اس وجہ سے استعفا دیا تھا کہ بی بی سی میں مرد اور خواتین صحافیوں کی تنخواہوں میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ اسی طرح 10 مئی 2021ء کو بی بی سی اُردو ڈاٹ کام کی ایک شہ سرخی ہے کہ ’’فرانس کے کیتھولک چرچ کے پادریوں نے دو لاکھ سولہ ہزار بچوں سے جنسی زیادتی کی، رپورٹ۔‘‘ 7 مئی 2021ء کی ایک شہ سرخی اس طرح ہے کہ ’’خواتین پر تشدد: فرانس اور سویڈن میں حالیہ مہینوں میں خواتین کے بڑھتے قتل کی وجہ کیا ہے؟‘‘ 5 نومبر 2021ء کی ایک شہ سرخی ہے: ’’ایک سال میں ہزاروں امریکی فوجی جنسی زیادتی کا شکار۔‘‘ اور 6 نومبر 2021ء کی ایک شہ سرخی یہ ہے: ’’جنسی ہراسانی: انگلینڈ کے سکولوں میں لڑکیوں کی جانب نامناسب رویہ عام ہونے لگا، رپورٹ میں انکشاف۔‘‘ کیا برخوردار اور ان جیسی سوچ رکھنے والے مغربی دنیا میں رہنے والوں اور وہاں پر یہاں کے سماج کا ماتم کرنے والوں، جن کو پاکستان میں اس طرح کے واقعات کا غم کھائے جا رہا ہے، کو وہاں پر ہونے والا ایسا کچھ نظر نہیں آرہا اور آیا انھوں نے کبھی مغربی دنیا میں ہونے والے اس طرح کے واقعات پر کچھ تحریر اور اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے؟
برخوردار فضل ربی راہیؔ اپنی مذکورہ جوابی تحریر میں ایک طویل تمہید کے بعد لکھتے ہیں: ’’اس طرح کے تاثرات مَیں نے ابھی تک اُردو اور پشتو کی چالیس پچاس کتابوں پر لکھے ہوں گے اور ظاہر ہے جب کتاب اور صاحبِ کتاب میں کچھ اچھا نظر آتا ہے، تو حوصلہ افزائی کی غرض سے اس کی جائز توصیف بھی کرتا ہوں۔ مَیں نے تو آپ کی کتابوں پر بھی تبصرے لکھے ہیں جو شائع ہوئے ہیں۔ ان میں تو مَیں نے آپ کی بھی بے حد تعریف کی ہے۔ کیا میں نے ضیاء الدین صاحب کی طرح آپ کی بھی خوشامد اور چاپلوسی کی انتہا کی ہے؟‘‘
شاید طیش اور بدحواسی میں برخوردار کا حافظہ بھی جواب دے جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے جب کہ برخوردار سے اس ضمن میں، مَیں نے اشاروں میں نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں پتا نہیں کتنی مرتبہ بات کی ہے کہ آپ لوگ کتابوں پر تنقیدی نہیں بلکہ توصیفی تبصرے لکھ رہے ہیں۔ عرض ہے کہ یہ ٹھیک نہیں اور ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نیز برخوردار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آئندہ کے لیے اس حوالے سے محتاط رہوں گا۔
اگر مَیں برخوردار کی اپنے حوالے سے اس طرح کی تحریروں سے خوش ہوتا یا ان سے مجھے اتفاق ہوتا، تو مَیں کیوں انھیں اور فضل مولا خان جی کو نہ صرف انھیں کی مجوزہ کتاب ’’وادئ سوات کے سپوت‘‘ کو نہ لکھنے سے باز رہنے کا کہتا بلکہ اس میں میرے بارے میں لکھنے سے ان کی سرتوڑ کوشش کی وجہ سے اتفاق کر ہی لیتا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن اگر برخوردار کو یاد نہیں، یا وہ یہ بات کرنے سے بہ وجوہ پہلو تہی کرتے ہیں، تو فضل مولا خان جی اور امجد علی سحابؔ کو یاد ہوگا کہ ہزارہ سے مونال ریسٹورنٹ تک اور پھر ریسٹورنٹ میں ہمارے درمیان اس حوالے سے کیا مکالمہ اور مباحثہ ہوا تھا؟ جب برخوردار اور خان جی کی آخری کوشش کے باوجود مَیں اس بات سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، تو کیا برخوردار اور خان جی کا سوال یہ نہیں تھا کہ اگر ہم آپ کے بارے میں آپ کے اتفاق نہ کرنے کے باوجود ہی لکھ لیتے ہیں، تو کیا آپ عدالت جائیں گے؟ جس پر میرا جواب تھا کہ مَیں اس وقت دیکھوں گا کہ مجھے کیا کرنا ہے! اور کیا اس حوالے سے آپ کا دیا ہوا ’’سوال نامہ‘‘ مَیں نے آپ کو پُر کیے بغیر واپس نہیں کیا تھا؟ چناں چہ اس کے بعد بھی اگر آپ میری سوچ کا زاویہ نہیں سمجھ سکے ہیں، تو اس پر افسوس اور ماتم کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
برخوردار میری تحریر کے آخری استفہامیہ اقتباس کو جس طرح سمجھے ہیں…… اُس نے اُن کی اُردو دانی کی قلعی بھی کھول دی۔ میری تحریری باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ برخوردار نے سوات کے بارے میں اس طرح لکھا ہے…… بلکہ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب برخوردار کو یہ یاد دہانی کرانا تھی کہ آپ نے مذکورہ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو جس طرح ذہنی بیمار اور نفسیاتی مریض تصور کیا ہے، وہ صحیح نہیں۔ اور برخوردار کو یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ بننے اور ہر معاملہ میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ملالہ کے اُس ’’ووگ میگزین‘‘ ہی میں ذاتی بیان کے مطابق اس کی ’’پارٹنر شپ‘‘ والی سوچ سے تو اس کی والدہ بھی متفق نہیں تھی۔ کیا برخوردار کی باتوں اور ان کے فوائد سے ملالہ کی والدہ بھی ناواقف ہے؟ اگر ان سے واقفیت کے باوجود، وہ ملالہ کی اس سوچ سے متفق نہیں تھی، تو کیا برخوردار کے مطابق ملالہ کی والدہ بھی ذہنی بیمار اور نفسیاتی مریضہ ہے…… یا ملالہ کی وہ سوچ ہی غلط تھی؟ نیز برخوردار اور ان جیسے بہت سارے ایک غلط سوچ کے دفاع میں خدائی فوج دار کیوں بن گئے؟
چور مچائے شور کے مصداق برخوردار فضل ربی راہیؔ لکھتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب! کس اوچھے انداز میں آپ نے اس حوالے سے میری مثال دی ہے، میرے خاندان اور دوستوں کی مثال دی ہے۔ تنقید کا یہ انداز خالصتاً ذاتیات کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی ذی شعور اور غیر متعصبانہ شخص کتاب پر میرے پورے تاثرات پڑھ لے، تو وہ ہرگز یہ خیال نہیں کرے گا کہ میرا مطلب پورا معاشرہ ہے۔‘‘ تو عرض ہے کہ اگر یہ انداز اوچھا ہے، تو اس میں تو آپ ہی نے لکھا ہے کہ ہمارے معاشرے کے ’’غیر فطری، غیرانسانی اور عدم مساوات پر مبنی رسوم و رواج کو مسترد کردیا گیا ہے‘‘ اور اسے ’’ہمارے معاشرے کے ہر گھر کی کہانی‘‘ قرار دی ہے۔
برخوردار کی خدمت میں مزید عرض ہے کہ مَیں نے مکمل کتاب بھی پڑھی ہے اور اس پر آپ کی طرف سے تحریر شدہ پورے تاثرات بھی۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کی نظر میں، مَیں نہ ’’ذی شعور‘‘ ہوں اور نہ ’’غیر متعصب۔‘‘ جس اوچھے انداز میں کتاب اور آپ کے پورے تاثرات میں ہمارے معاشرے پر بات کی گئی ہے، وہ صاحبِ کتاب اور آپ ہی کو جچتا اور زیب دیتا ہے۔ اپنی تحریر میں، مَیں نے واضح کیا ہے کہ مَیں اس تحریر میں یہاں پر کتاب اور آپ کے دوسرے تاثرات پر بات نہیں کرتا اور خود کو صرف ان دو باتوں تک محدود کیے رکھتا ہوں۔
جہاں تک آپ کی ذات، خاندان اور دوستوں کی مثال کی بات ہے، تو مَیں پہلے ہی واضح کرچکا ہوں کہ ’’سوات کا باشندہ ہونے اور یہاں کے سماج کا اپنے طور پر رکھنے والے شعور اور فہم و ادراک کی بنیاد پر میرا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے…… تاہم مترجم کی تحریر کو مدِنظر رکھتے ہوئے شک پڑجاتا ہے کہ شائد مترجم کے اپنے گھر، خاندان، قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں کی کہانی ایسی ہی ہے، جس کی بنیاد پر اسے یہ سوات کے ہر گھر کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
قارئین، میرے الفاظ ’’میرا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے‘‘ اور ’’شک پڑ جاتا ہے کہ شائد‘‘ پر غور کریں، تو بات خود بہ خود واضح ہوجاتی ہے کہ برخوردار کس اوچھے انداز میں میری بات کو توڑتے مروڑتے ہوئے اپنی غلطی کو قبول کرنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کی ناکام کوشش کے طور پر ملبہ میرے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں! میری یہ بات لکھنے کا مقصد برخوردار کو یہ یاد دہانی کرانا تھی کہ پورے معاشرے میں آپ، آپ کا خاندان، قریبی رشتہ دار اور دوست وغیرہ سبھی آجاتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح کی ہرزہ سرائی کرتے وقت تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھ لیا کریں۔ کیا برخوردار بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے پورے تاثرات میں کہیں پر بھی اپنے گھر، خاندان، رشتہ داروں اور قریبی دوستوں یا کسی اور کے استثنا کی بات کی ہے؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے، تو قابلِ گرفت میں کیوں……؟ میری تو بات یا نکتہ ہی یہی ہے کہ کوئی استثنا نہ ہونے یا نہ کرنے کی وجہ سے برخوردار کی بات کی زد میں سبھی لوگ آگئے ہیں۔ اور اگر برخوردار اپنے خاندان، رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کو اس معاشرے کا حصہ نہیں سمجھتے…… یا وہ اس معاشرے کاحصہ نہیں ہیں، تو وہ اور بات ہے۔
برخوردار نے کئی سوالات اٹھائے ہیں بلکہ ان کے کالم کا عنوان ہی ایک سوال ہے، جن کے جوابات دیے گئے۔ یوں شاید ان کی تشنگی ختم نہیں ہوئی ہوگی۔ برخوردار کی تشنگی ختم کرنے کے لیے شاید مزید کچھ لکھنا درکار ہوگا…… لیکن ڈھیر ساری باتیں مَیں تحریر میں نہیں لانا چاہتا……جیسا کہ ان کی ’’ای میل‘‘ میں لکھی گئیں متعدد لاحاصل باتوں کے ضمن میں، مَیں نے انھیں اپنی ’’ای میل‘‘ میں لکھا تھا کہ چوں کہ بعض باتوں کو مَیں تحریر میں نہیں لانا چاہتا، لہٰذا یہاں ان کو تحریر کرنے سے اجتناب برتتا ہوں اور اگر زندگی رہی اور آپ خیریت سے سوات آئے اور آپ کی مثبت سوچ اور الفاظ کے مطابق اگر آپ نے ایک عناد رکھنے والے، عداوت پالنے والے، متعصب اور سینے میں نفرت پالنے والے بندہ کی باتیں گوارا کیں، تو یہ عناد رکھنے والا، عداوت پالنے والا، متعصب اور سینے میں نفرت پالنے والا بندہ اس حوالے سے تمام باتیں آپ کو زبانی بتائے گا۔ (چوں کہ اُن ’’ای میلوں‘‘ کا ذکر برخوردار نے اپنی تحریر میں کیا ہے، اس لیے مجھے بھی اس کا ذکر کرنا پڑا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس حوالے سے میرے پاس آپ کے کئی ای میل موجود ہیں جن میں آپ نے جس توہین آمیز اور غیر پارلیمانی انداز میں مجھے مخاطب کیا ہے، اس سے مجھے آپ کی جارحانہ ذہنیت کا اندازہ بہ خوبی ہوچکا ہے۔‘‘ برخوردار کو معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے معلوم ہے کہ میری متعدد ’’ای میلز‘‘ آپ کے پاس موجود ہیں…… لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میرے پاس میری اپنی ای میلز اور آپ کی طرف سے ان کی جوابی ای میلز سب کچھ محفوظ پڑا ہے۔ ان ای میلز میں برخوردار نے جس ’’باادب‘‘ اور ’’پارلیمانی انداز‘‘ میں مجھے مخاطب کیا ہے، وہ بھی اُن کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ مَیں تو ان باتوں پر خاموش ہی رہا ہوں اور اپنی گذشتہ تحریر میں ان کے تذکرے سے گریز کرتا چلا آیا ہوں…… لیکن اب جب کہ انھوں نے ان ای میلز کی بات بھی چھیڑ دی ہے، تو کیوں نہ ان ای میلز کو پشتو زبان میں من و عن شائع کیا جائے…… تاکہ قارئین خود یہ فیصلہ کرسکیں کہ میری اور برخوردار کی ان ای میلز میں کیا ہے؟ اس طرح دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا)
پرویز انجم کے بقول
آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے
پہلے تو سنتا چلا آرہا تھا کہ برخوردار کو اگر کوئی آئینہ دکھاتا ہے، تو وہ بہت برا مان جاتے ہیں لیکن اب ایک ای میل اور ایک کالم میں جب انھیں پورا آئینہ بھی نہیں بلکہ اس کی ایک جھلک دکھائی، تو برخوردار کی مذکورہ تحریر کی ٹامک ٹوئیاں نہ صرف آئینہ ہوگئیں بلکہ راقم کو یقین ہوچلا کہ جو کچھ اس حوالے سے سننے میں آیا تھا، وہ سو فی صد سے بھی زیادہ صحیح ہے۔
مَیں نے تو برخوردار کو درخت پر چڑھنے کا گُر بھی سکھانے کی بھرپور کوشش کی ہے…… لیکن اب ظاہر ہوا کہ ان کے پلے کچھ نہیں پڑا ہے۔ درخت پر چڑھنا تو درکنار، وہ تو درخت تک پہنچنے کی صلاحیت بھی حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ میرے خیال میں فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
قارئینِ کرام کی معلومات کی خاطر یہ لکھنا بے جا نہ ہوگا کہ شاید قارئین میں سے بعض کو میرے پچھلے کالم کے کچھ الفاظ سخت نظر آئے ہوں گے، لیکن ان کی پشت پر اس محنت کا ضائع ہونا ہی ہے جس کا تذکرہ نہ چاہتے ہوئے برخوردار کی تحریر کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔ علاوہ ازیں مَیں نے کئی مہینے پہلے ہی، یعنی 8 جون 2021ء کو، برخوردار کو اپنی ای میل میں مشورہ دیا تھا کہ اپنی مذکورہ تحریر (یعنی کتاب پر بہ طورِ مترجم اپنے تاثرات) کو از سرِ نو لکھیں…… یعنی ان میں چند ترامیم کا کہا تھا اور انھیں کئی باتوں کی نشان دہی بھی کی تھی۔ نیز یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ ایسا ہونے تک کتاب کی فروخت اگر بند کی جائے، تو بہتر ہوگا۔ میری اُس ای میل کے جواب میں انہوں نے دوسری تو بہت سی باتیں لکھی ہیں…… لیکن اس حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے۔ اگر وہ یہ تک لکھ دیتے کہ مَیں کتاب کی فروخت کو بند تو نہیں کرسکتا، لیکن دوسرے ایڈیشن میں یہ تصحیح کرلوں گا، تو بھی کوئی بات بنتی اور مجھے یہ باتیں تحریر کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔ لیکن کسی اخبار وغیرہ میں بھی نہیں بلکہ ذاتی ای میل میں نشان دہی کرنے اور تصحیح کے لیے کہنے کے باوجود برخوردار کی طرف سے مزید تو بہت کچھ لکھنا اور مذکورہ حوالے سے خاموشی اختیار کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اب بھی اپنی اُن نامناسب باتوں پر قائم ہیں۔ لہٰذا مجبوراً قلم اٹھانا پڑا۔
میرے بارے میں تو برخوردار لکھتے ہیں کہ ’’انھیں حق حاصل ہے کہ وہ کسی کتاب کے کسی حصے پر تنقید ضرور کریں لیکن ان کا طرزِ تحریر اگر دل آزار ہو یا وہ اپنی تنقید میں کسی کی شخصیت پر ذاتی حملے کریں، یہ ہرگز قابل قبول نہیں۔‘‘ یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ان کی اصولی بات ہے یا صرف اپنی ذات اور تحریر تک محدود ہے؟ اگر یہ اصولی بات ہے، تو میری تحریری بات کو ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر معمولی معمولی نکتوں کو بزعمِ خود بڑا بنا کر کسی باعزت شخص کو بے عزت کرنے کی سرتوڑ لیکن ناکام کوشش‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن اس کا خود پہلے عمومی طور پر سواتی معاشرے کو، اور اب اس تحریر میں اس کا دایرہ پورے پاکستان تک بڑھا کر پورے پاکستانی معاشرے کی رسوم و رواج کو، استثنائی نہیں بلکہ عمومی طور پر’’غیر فطری، غیر انسانی اور عدم مساوات پر مبنی‘‘ اور اسے ’’ہمارے معاشرے کے ہر گھر کی کہانی‘‘ قرار دینا کیا دل آزاری اور پاکستان کے باعزت شہریوں کی شخصیت پرحملہ نہیں ہے؟
یاد رہے کہ میری اپنی ذات پر اس طرح کے بہت سے حملے مَیں نے برداشت کیے ہیں جن میں ان کے ممدوحین کے حملے بھی شامل ہیں۔ اور برخوردار نے جو کچھ کہا ہے، وہ ذکر ہوچکا ہے۔ لہٰذا یہاں ان کی تکرار کی ضرورت نہیں…… لیکن مَیں نے انھیں اپنی ذات پر حملے تصور کرکے نہ کسی کو کوئی جواب دیا ہے اور نہ ایسے حملوں سے مجھے کوئی فرق ہی پڑتا ہے۔ تاہم جس نے بھی پورے معاشرے اور پورے سوات کے بارے میں ایسا کیا ہے، اس سے مجھے ضرور فرق پڑتا ہے۔ مَیں نے اسے برداشت نہ کرتے ہوئے منطقی دلائل کے ساتھ جوابات دیے ہیں۔ جن کا ثبوت میری دوسری تحریروں کے علاوہ میری کتاب ’’سوات: تاریخ کے دوراہے پر‘‘ میں موجود ہے جس کے پبلشر برخوردار خود ہیں۔ اب تو یہ شک بھی پڑتا ہے کہ شاید برخوردار نے مذکورہ کتاب کو پڑھا یا سمجھا ہی نہیں، ورنہ وہ ایسی باتیں کبھی نہ لکھتے۔
یار زندہ صحبت باقی!
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔