غریب کو بھی استثنا چاہئے

اگرچہ ان دنوں موضوعات کی بہتات ہے لیکن بعض خبریں بہت دلچسپ اور اپنے اندر کئی اشارے سمو ئے ہوئی ہیں۔ ایک خبر تو یہ ہے کہ احتساب عدالت نے غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو حاضری سے استثنا دے دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم کو استثنا دینا شاید اتنا حیران کن نہ ہوتا، اگر نظریں اس خبرکے ساتھ جڑی ایک اور استثنا کی خبر پر ٹھہر نہ جاتیں۔ خبر یہ ہے کہ کسٹم عدالت راولپنڈی میں زیر سماعت کرنسی اسمگلنگ کیس میں ماڈل ایان علی کو بھی عارضی استثنا دے دیا ہے جو شاید مستقل استثنا میں تبدیل ہو جائے۔
ایک اور خبر کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف اُن کا پورا خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی عدالتوں میں حاضری سے استثنا کے طلب گار ہیں۔ جلد یا بدیر اس خبر کی توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ معزز عدالتیں ان سب ملزمان کو استثنا دے دیں۔

کسٹم عدالت راولپنڈی میں زیر سماعت کرنسی اسمگلنگ کیس میں ماڈل ایان علی کو بھی عارضی استثنا دے دیا ہے جو شاید مستقل استثنا میں تبدیل ہو جائے۔

عدالتوں میں پیشی سے رعایت دینا معزز عدالت کا اختیار ہے اور قانونی موشگافیوں سے ایک عام شہری ناواقف ہے، لیکن ان رعایتوں پر چند سوال ضرور اُٹھتے ہیں اور قانون کی گھمن گھیریوں سے بااثر اور شاطر ملزمان ماضی میں کس طرح مستفید ہوتے رہے، وہ بھی کوئی بھولا نہیں ہے۔ حسین حقانی جس کو مہذب ترین الفاظ میں بھی دورِ حاضر کا میر جعفر قرار دیا جاسکتا ہے۔ قانون کی انہی کمزوریوں کا فائد ہ اُٹھاتے ہوئے وطن عزیز سے بھاگ گیا اور اب انتہائی دیدہ دلیری سے پاکستان کے بارے میں دیارِغیر میں بیٹھ کرزہراُگلتا رہتا ہے۔ اور یہ سیدھے سادھے الفاظ میں ہمارے نظام عدل کو کھلا چیلنج بلکہ اس کے منھ پر طمانچے کے مترادف ہے۔

حسین حقانی جس کو مہذب ترین الفاظ میں بھی دورِ حاضر کا میر جعفر قرار دیا جاسکتا ہے۔ قانون کی انہی کمزوریوں کا فائد ہ اُٹھاتے ہوئے وطن عزیز سے بھاگ گیا

سوال یہ ہے کہ ایک معمولی جرم میں ملوث شخص اِن کورٹ کچہری کے چکر لگا لگا کر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے مگر عدالتوں میں حاضری سے استثنا اس کا مقدر نہیں بنتا۔ میں نے رپورٹنگ کے دوران میں ستر ستر سالہ بوڑھے اشخاص کو عدالتوں کی راہداریوں میں دھکے کھاتے دیکھا ہے کہ جن کی صحت انہیں دو قدم چلنے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن ان کے لیے نہ تو کوئی میڈیکل بورڈ ہے، نہ عدالتی حاضری سے رعایت کی کوئی اور صورت! میں جب ایسی خبریں دیکھتا ہوں، تو حیران و پریشان ہو جاتا ہوں کہ عدالتیں جب ایک عام آدمی کے وارنٹ جاری کرتی ہیں، تو مقامی پولیس اس کے گھر کے دروازے تک توڑ دیتی ہے اور اس کے قریبی عزیز و اقارب جو بھی میسر ہو اُسے گھسیٹتے ہوئے تھانے لے جاتی ہے اور اُس وقت تک زیر عتاب رکھتی ہے جب تک کہ مطلوب ملزم خود ہاتھ باندھ کر اُن کے قدموں میں نہیں گر جاتا، جبکہ دوسری طرف بااثر ملزمان کے لیے عدالتی وارنٹ سالہا سال جاری ہوتے رہتے ہیں اور وہی قانون جو عام آدمی کے لیے ایک جابر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ طاقتور کے لیے جاری کردہ ثمن کو ردی کاغذ کے ٹکڑے جتنی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔
جب انصاف کی بات کر ہی رہے ہیں، تو پاکستان میں انصاف کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان کاذکر بھی ضروری ہے۔ عوامی جلسوں میں اخلاقیات اور قانون کا درس دینے والا یہ رہنما عدالتی اشتہاری ہے، مگر قربان جائیں اس قانون پر کہ جس کی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھتی اورا س معاملے میں وہ ایک لاش کی طرح بے حرکت اور خاموش ہے۔ ہم دور جدید کی جدتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے لیکن اکیسویں صدی میں پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے پوش ترین علاقے میں پولیس چودہ افراد کو گولیوں سے بھون ڈالتی ہے اور متاثرین انصاف کے لیے دربدر پھرتے ہیں۔ عدالتی حکم کے باوجود پنجاب حکومت جسٹس باقر نقوی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے سے انکاری ہے۔ متاثرین کے اس بنیادی حق کو تلف کرنے کے لیے وہ تمام ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں جو تاخیر در تاخیر کے اسباب پیدا کر رہے ہیں اور ایسے وقت میں ملک کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ارشاد فرما رہے ہیں کہ ’’سیاسی فیصلے عدالتوں اور سڑکوں پر نہیں ہوتے۔‘‘ اگرچہ یہ بات کرتے وقت وہ بھول گئے کہ سڑکوں پر عدالتیں لگانے کا دعویٰ انہی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کیا تھا اور اسلام آباد سے لاہور سٹرکوں پر گھناؤنی سیاست رچانے کا جو منصوبہ انہوں نے تشکیل دیا، اس کو اگر عوامی پذیرائی مل جاتی، تو شاید اس ملک میں بچا کھچا قانون بھی کسی بوری میں بند کرکے کونے کھدرے میں ڈال دیا جاتا۔

جب انصاف کی بات کر ہی رہے ہیں، تو پاکستان میں انصاف کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان کاذکر بھی ضروری ہے۔ عوامی جلسوں میں اخلاقیات اور قانون کا درس دینے والا یہ رہنما عدالتی اشتہاری ہے، مگر قربان جائیں اس قانون پر کہ جس کی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھتی اورا س معاملے میں وہ ایک لاش کی طرح بے حرکت اور خاموش ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ نظام، یہ قانون، یہ سماجی معاہدہ،یہ سب کچھ عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہے۔ اگر عام آدمی اس نظام سے تنگ اور بے زار ہے، قانون خواص کی لونڈی بن جائے، جمہوریت چند بااثر گھرانوں کا کھیل رہ جائے، تو پھر اس نظام کو بدلنا ہو گا اور معاشرے کے موجودہ حبس، اُکتاہٹ اور بے چینی سے میں یہ اندازہ کر رہا ہوں کہ وہ وقت اب دور نہیں جب نسل در نسل ظلم سہنے والے بے بس لوگ اُٹھیں گے اور اس پورے نظام کو لپیٹ دیں گے۔