مختار محی الدین برطانوی شہر ’’بلیک برن‘‘ کی ایک کیمیکل فیکٹری میں شفٹ ورکر تھا۔ 1994ء میں اس نے نیشنل لاٹری کا سب سے بڑا انعام جیتا۔ ایک پونڈ میں خریدی گئی لاٹری کے چھے نمبر نکلنے پر اُسے 17.9 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم ملی۔
یہ لاٹری جیتنے سے پہلے وہ بہت پُرسکون زندگی بسر کر رہا تھا۔ ’’ملین ایر‘‘ بننے کے بعد اس کی اپنی بیوی سے علاحدگی ہوگئی اور اس نے ایک انگریز گوری سے شادی رچالی۔ رشتے دار اُس سے دور ہوتے چلے گئے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے رپورٹر ہر وقت اس کی ٹوہ میں رہنے لگے۔ اس نے ایک مسجد کی تعمیر کے لیے کچھ رقم دینے کا ارادہ کیا، تو انتظامیہ نے جوے کی اس رقم سے کسی قسم کی مدد لینے سے معذرت کرلی۔ دولت کے حصول کے بعد اس خوش قسمت شخص نے بڑی بھرپور زندگی گزاری اور اپنی ہر خواہش، ہر حسرت اور ہر تمنا کو پورا کیا۔ مختار محی الدین 2017ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس کی تمام دولت اور اثاثے یہیں رہ گئے۔
اسی طرح 2002ء میں نارفوک کے ایک 19 سالہ بَن مین (کوڑا اُٹھانے والے) نوجوان مائیکل کیرول نے تقریباً 10 ملین پاؤنڈ کی لاٹری جیتی۔ اس نوجوان کی بدقسمتی سے خوش قسمتی تک کے سفر کی کہانی بڑی دلچسپ اور افسوس ناک ہے۔ مائیکل جب 18 مہینے کا بچہ تھا، تو اس کے والد کو ایک کلب میں جھگڑے کے دوران میں چاقو سے ایک جوڑے پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں 11 برس قید کی سزا ہوگئی۔ 13 برس کی عمر میں مائیکل کو ایک سٹور سے چوری کے جرم میں جیل کی ہوا کھانی پڑی…… جس کے بعد وہ اور کئی طرح کے جرائم میں ملوث رہا۔ لاٹری جیتنے کے بعد جب وہ ’’ملین ایر‘‘ بنا، تو اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا بلکہ کوٹس انٹرنیشنل بینک نے اس نو دولتے نوجوان کے مجرمانہ پس منظر کے باعث اس کا اکاؤنٹ کھولنے سے معذرت کرلی تھی۔ مائیکل کیرول نے دولت مند ہونے کے بعد جی بھر کے عیاشی کی۔ اپنے دوستوں پر خوب دولت لٹائی۔ اپنی ماں، اپنی ایک بہن اور آنٹی کو ایک ایک ملین پونڈ کی خطیر رقم دے دی۔ دولت مند ہونے کے باوجود بھی وہ کئی طرح کے جرائم میں مبتلا رہا اور اسے کئی ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔ 2010ء میں یہ شخص پھر سے کنگلا ہوکر دوبارہ کوڑا اٹھانے کی ملازمت کرنے پر مجبور ہوگیا…… لیکن اس نے 8 برس کے عرصہ میں جس تیزی سے اپنی دولت لٹائی، اس پر مائیکل کو کوئی پچھتاوا نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف وہی دولت آپ کے کام کی ہوتی ہے…… جو اپنی حسرتیں اور خواہشیں پوری کرنے پر خرچ کرلی جائے۔ مائیکل کی زندگی کے یہ آٹھ سال بڑے دلچسپ اور سبق آموز تھے جن پر ایک کتاب "Careful What You Wish For” لکھی گئی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
برصغیر میں سیاست دانوں اور حکم رانوں کے علاوہ آج بھی کوئی عام آدمی راتوں رات کروڑ پتی بن جائے، تو لوگ استفسار کرتے ہیں کہ کیا کوئی لاٹری نکل آئی ہے؟ برطانیہ میں واقعی یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں ہزاروں لوگ راتوں رات لاٹری جیت کر ’’ملین ایر‘‘ یا کروڑ پتی بن چکے ہیں۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں 1994ء میں نیشنل لاٹری کا آغاز کیا گیا۔ ابتدا میں ایک پونڈ کی یہ لاٹری صرف ہفتے کے روز نکلتی تھی۔ بعد ازاں یہ ہفتے کے چھے دن کھیلی جانے لگی اور اس کے سب سے بڑے انعام کو ’’جیک پاٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک لاٹری کی مالیت ایک پونڈ سے ڈھائی پونڈ تک ہوتی ہے اور اسے 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی شخص خرید کر کھیل سکتا ہے۔ گوروں کا کمال یہ ہے کہ وہ جوے میں سے بھی انسانی فلاح و بہبود کا کوئی وسیلہ نکال لیتے ہیں۔ اس لاٹری سے ہونے والی آمدنی کا 25 فی صد حصہ ’’گڈ کاز‘‘ یعنی صحت، تعلیم، ماحولیات، آرٹس، ثقافت، کھیلوں اور دیگر فلاحی اور خیراتی منصوبوں میں پر خرچ کیا جاتا ہے…… جب کہ 53 فی صد رقم انعامات جیتنے والوں کو دے دی جاتی ہے۔ کیملاٹ گروپ اس نیشنل لاٹری کو ریگولیٹ اور گیمبلنگ کمیشن اس کی نگرانی کرتا ہے۔ آغاز سے اب تک نیشنل لاٹری سے حاصل ہونے والی رقم سے تقریباً 40 بلین پاؤنڈ کی رقم 26 ہزار سے زیادہ فلاحی منصوبوں پر خرچ ہوچکی ہے۔
کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اسی طرح ہر ہفتے لاکھوں لوگ ایک پونڈ کی لاٹری کھیلتے ہیں اور یہ رقم کئی ملین تک جا پہنچتی ہے۔ لاٹری کھیلنے والے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے ہر ہفتے باقاعدگی سے لاٹری کھیلتے ہیں…… لیکن آج تک ان کا کوئی بڑا انعام نہیں نکلا…… جب کہ بہت سے خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو پہلی بار قسمت آزمانے کے لیے ایک پونڈ یا ڈھائی پونڈ کی لاٹری کھیلتے ہیں اور جیک پاٹ جیت کر کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ لاٹری میں جیتی جانے والی رقم پر برطانیہ میں کوئی ٹیکس بھی نہیں لگتا۔ بعض اوقات تو سیر سپاٹے کے لیے برطانیہ آنے والے سیاح بھی لاٹری میں بڑی رقم جیت لیتے ہیں۔
اس ملک میں 30 ہزار سے زیادہ ایسے ٹرمینل ہیں جہاں سے یہ لاٹری خریدی جاسکتی ہے۔ لاٹری میں بڑی رقم جیتنے والوں کی اکثریت خود کو منظرعام پر نہیں لاتی…… جب کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کروڑ پتی بننے پر بڑی پارٹی کا اہتمام کرکے اس کا اعلان کرتے ہیں۔ برطانیہ کی نیشنل لاٹری کے ذریعے کروڑپتی بننے والے بہت سے مرد و خواتین ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی ملازمتیں ترک نہیں کیں۔ ایک ملین ائیر پلمبر آج بھی پلمبنگ کا کام کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک انگریز عورت 5 ملین پونڈ سے زیادہ کی لاٹری جیتنے کے بعد بھی ایک سٹور میں بدستور ملازمت کر رہی ہے۔ کئی خوش قسمت ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ بار ’’نیشنل لاٹری‘‘ میں بڑی رقم جیتی اور اب وہ مسلسل لاٹری کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔
لاٹری کے ذریعے کروڑ پتی بننے والوں کی زندگی کی داستانیں بہت دلچسپ ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں کئی لوگوں نے 100 ملین پونڈ سے بھی زیادہ رقم کا جیک پاٹ جیتا جس میں سے بڑی رقم خیراتی اور فلاحی اداروں کو عطیے میں دے دی۔ اکثر لاٹری کھیلنے والے کروڑ پتی یا ارب پتی بننے کے خواب دیکھتے ہیں اور منصوبے بناتے رہتے ہیں کہ اگر وہ لاٹری کا جیک پاٹ جیت گئے، تو اسے کیسے خرچ کریں گے…… لیکن جب ان میں سے کسی کا جیک پاٹ نکل آتا ہے، تو اس کی ترجیحات اور زندگی کا ڈھنگ ہی بدل جاتا ہے۔ جو دولت محنت کیے اور کمائے بغیر مقدر کا ستارا چمکنے سے راتوں رات مل جائے، وہ انسان کی نفسیات کو بھی یکسر اور فوراً بدل کے رکھ دیتی ہے۔ یقین نہ آئے تو دنیابھر میں لاٹری کے ذریعے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والوں کی زندگی کی کہانیاں پڑھ کر دیکھیے کہ اچانک ملنے والی دولت کیا کرشمے دکھاتی ہے؟ لاٹری کے ذریعے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والوں کی اکثریت ہر طرح کی آسائشیں حاصل کرنے کے بعد یہی کہتی ہے کہ اصل دولت صحت ہے…… یعنی ’’ہیلتھ از ویلتھ‘‘ جب تک قدرت نے انسان کو صحت کی نعمت عطا کی ہوئی ہے، اس وقت تک دولت بھی انسان کے کام آتی ہے۔ اس لیے جن لوگوں کو صحت کی دولت میسر ہے، انہیں اور بہت زیادہ دولت کی خواہش کی بجائے اپنے رب کا ہر وقت شکر ادا کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جن کے پاس بے حساب دولت ہے…… لیکن وہ صحت کی دولت سے محروم ہیں۔ وہ علا ج معالجہ اور دواؤں کے سہارے زندہ ہیں۔
برطانیہ میں لوگ ہر سال 14.2 بلین پونڈ کی رقم لاٹری کھیلنے پر صرف کرتے ہیں۔ ویسے تو اس ملک میں چھوٹے بڑے 156 کیسینو یعنی جواخانے ہیں…… لیکن وہاں صرف صاحبانِ حیثیت ہی جاسکتے ہیں۔ برطانیہ میں سب سے مقبول بٹینگ شاپس ہیں (جہاں کھیلوں، گھوڑوں اور کتوں وغیرہ کی دوڑ پر رقم لگائی جاتی ہے) جن کی تعداد 7 ہزار سے زیادہ ہے۔ یو کے میں جوا ایک انڈسٹری اور بڑا کاروباری نیٹ ورک ہے جس کا سالانہ ٹرن اوور تقریباً 15 بلین پونڈ ہے۔
اس صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
دوسری طرف جوا ایک ایسی لَت ہے جو ایک بار لگ جائے، تو عمر بھر انسان کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے بہت سے مشہور جوے خانے یعنی کیسینوز ایسے ہیں جہاں پاکستان اور بھارت کی مشہور شخصیات (فلم سٹار، سیاست دان، کھلاڑی، بڑے افسر، جج اور تاجر) اکثر دکھائی دیتے ہیں…… مگر اب سوشل میڈیا کی وبا کے باعث ایسے ’’معتبر‘‘ لوگوں کی آمد و رفت کو ہر ممکن طریقے سے اس طرح خفیہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس طرح کنواری اپنا حمل چھپاتی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔