’’سعودی اوجر‘‘ سعودی عریبیہ میں ایک بین الاقوامی کمپنی تھی…… جو کہ دراصل صرف ایک کمپنی نہیں بلکہ گروپ آف کمپنیز تھی۔ گو کہ اس کا مرکزئی کام تعمیرات یعنی کنسٹریکشن اور ’’مینٹی ننس‘‘ کا تھا…… لیکن اس کے علاوہ اس کے درجنوں کاروبار تھے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اس کا مرکزی دفتر جب کہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ’’اوجر انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے اس کا بین الاقوامی سطح کا دفتر تھا۔ اس کے علاوہ یہ متحدہ عرب امارات، لبنان، اُردن، ترکی، سویزرلینڈ، سپین، بھارت، کینڈا اور برطانیہ میں بھی وجود رکھتی تھی۔ اس کی اصل مالک لبنان کی حریری فیملی تھی اور پریذیڈنٹ لبنان کے مرحوم وزیرِاعظم رفیق الحریری تھے۔ رفیق الحریری جب بیروت میں ایک بم دھماکے میں قتل کر دیے گئے، تو ان کی جگہ ان کے بیٹے بہاء الدین حریری، سعد حریری اور ایمن حریری آگئے۔ عملاً کچھ عرصہ سعد حریری نے کمپنی کو چلایا اور پھر جب وہ والد کی جگہ سیاست میں شامل ہوئے، تو ان کے دوسرے بھائی ایمن حریری بطورِ جنرل منیجر کمپنی کے ذمہ دار بنے…… لیکن جس طرح ہر کمال کو زوال ہے، اسی طرح کچھ حالات کے مطابق ’’سعودی اوجر‘‘ نامی یہ کمپنی یک دم ڈھرام سے گرگئی۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حریری فیملی چوں کہ عملاً سیاست میں تھی، اول رفیق حریری وزیراعظم بنے، پھر ان کے بیٹے سعد حریری بنے…… سو ان کی سیاست کی وجہ سے کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ حریری خاندان کی یہ کاروباری ریاست تباہ ہوگئی…… مگر اس کی وجوہات کے قطعِ نظر جب کمپنی تباہ ہوئی، تو تب اس میں دنیا بھر کے تقریباً 25 ہزار کے قریب مستقل ملازمین تھے…… جب کہ ہزاروں میں ڈیلی ویجز یا رینٹل ملازمین تھے۔ اس کمپنی کے سیکڑوں سب کنٹریکٹر اور سپلائر تھے۔ سننے میں آیا کہ کمپنی دیوالیہ ہوئی، تو سعودی حکومت نے کمپنی کے تمام اثاثہ جات کا انتظام خود سنبھال لیا اور ملازمین دربدر ہوگئے۔ بہت مشکل سے کچھ لوگ اُدھار لے کر اپنے ملک واپس آئے اور کچھ وہی کہیں دوسرے اداروں میں ملازم ہوگئے…… لیکن ان تمام ملازمین کے ہزاروں اور لاکھوں کے بقایا جات کمپنی کے پاس باقی تھے۔ کمپنی میں یورپین آسٹریلین شرق الوسط کے علاوہ تیسری دنیا سے بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، فلپائن اور پاکستان سے بے شمار ملازمین تھے…… جن کی تمام جمع پونجی پھنس گئی۔
اب موصولہ اطلاع کے مطابق تمام یورپین ممالک نے سعودی حکومت سے اپنے لوگوں کے پھنسے ہوئے حقوق لے لیے ہیں، جب کہ فلپائن اور بھارت جیسے ممالک نے سعودی وزراتِ محنت سے اپنے کارکنان کی فہرستیں لے کر ان کو مقامی طور پر ادائی کر دی ہے…… لیکن ہمارے پاکستانی محنت کشوں کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں۔ نہ ان کی لبنان کی حریری فیملی تک کوئی اپروچ ہے…… نہ سعودی حکومت تک رسائی اور نہ ہماری اپنی حکومت کی امداد۔
ہم اپنی مستند معلومات کی بنیاد پر یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کمپنی میں ہزاروں پاکستانی بطورِ مستقل ملازم، بطورِ رینٹل ورکر اور درجنوں سب کنٹریکٹر تھے کہ جن کا کروڑوں میں پیسا پھنسا ہوا ہے۔ یہ بے چارے کہ جن میں اکثریت فیلڈ ورکروں کی ہے جیسے الیکٹریشن، پلمبر، ویلڈر، ڈرائیور، کلرک وغیرہ گذشتہ چھے سال سے خجل و خوار ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر وزارتوں تک ہر دورازے پر دستک دے چکے ہیں…… مگر نہ کوئی داد رسی، نہ شنوائی۔ حالاں کہ اگر سرکار سنجیدگی سے ان کے حقوق واسطے سعودی حکومت سے رابطہ کرے، تو ملکی خزانے میں بے شمار پیسہ صرف اس مد میں آسکتا ہے۔ میری ان متاثرین کے کچھ لوگوں سے بات ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک سید ضیاء الحسنین نامی ورکر کے 86 ہزار ریال بنتے ہیں۔ ایک عاطف کیانی نامی شخص کے 20 ہزار سے زائد بنتے ہیں اور اسی طرح دیگر ہزاروں لوگ ہیں۔
پھر اسی طرح ایک کنٹریکٹر ہیں الیاس شاہ نامی…… ان کے قریب 3 لاکھ ریال پھنسے ہوئے ہیں۔ اب اگر ہماری حکومت سعودیہ کی وزراتِ محنت کے لیبر آفس کہ جس کو عربی میں مکتبِ عمل کہتے ہیں…… سے تمام لسٹیں طلب کرے، تو ان کو اصل رقم کا اندازہ ہوجائے گا۔ بے شک یہ رقم کروڑوں ڈالر میں ہے…… جو کہ پاکستانی کارکنوں کا جائز حق ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اس پر سعودی لیبر کورٹ فیصلہ دی چکی ہے۔ اگر یہ رقم واپس آتی ہے، تو نہ صرف یہ ہزاروں پاکستانی خاندانوں واسطے باعثِ اطمینان ہوگا بلکہ سرکاری خزانہ میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور پھر یہ رقم ہمارے سعودیہ پلٹ دوست یقینا مقامی مارکیٹ میں سرمایہ کاری واسطے استعمال کریں گے…… جس سے کاروباری سرگرمیاں بھی پروان چڑھیں گی اور روزگار کے مواقع بھی ہاتھ آئیں گے۔
اب درجِ بالا تمام گزارشات کا جائزہ حکومت کو لے کر فوراً سعودی حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے۔ آخر یورپی ممالک خاص کر فرانس نے اسی وقت اپنے لوگوں کے بقایا جات کیسے حاصل کیے تھے؟ یہ جو اَب کی حکومت ہے تحریک انصاف کی، اس حکومت خاص کر وزیراعظم عمران خان کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ان کی حکومت آنے میں سب سے زیادہ حصہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کا تھا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے نہ صرف عمران خان صاحب پر فنڈز کی بارش کی تھی بلکہ وہ براہِ راست پاکستانی انتخابات پر اثرانداز ہوئے تھے اور یہ بات میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بیرونِ ملک پاکستانی کس طرح دن رات فون کر کے اپنے دوستوں رشتہ داروں کو تحریکِ انصاف کو ووٹ دینے کے لیے قائل کرتے تھے…… بلکہ مَیں تو ذاتی طور پر ایسے بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں جو خاص ووٹ ڈالنے اور ڈلوانے آئے تھے۔ اب وہ لوگ کہاں جائیں، کس سے انصاف طلب کریں، ان کی مدد کون کرے؟ یہ تمام سوالات معاشرہ بحیثیتِ مجموعی اگر کرے گا، تو یقینا عمران خان کی حکومت ہی سے کرے گا۔
ویسے تو ہمارے وزیرِ اعظم صاحب حق بات کا ساتھ دینے کے دعوے دار ہیں، آزاد خارجہ پالیسی کے پیروکار ہیں، تو اس مسئلہ پر سعودی حکومت سے بات کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ یہ مسئلہ 100 فی صد واضح اور حق پر مبنی ہے۔ میرا نہیں خیال اگر وزیرِاعظم صاحب یا ان کا وزیرِ خارجہ یہ تمام حقائق سعودی حکومت خصوصاً شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے اٹھائیں، تو وہاں سے ان کو انکار ہو۔ کیوں کہ پھر یہ مسئلہ کسی بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھی جا سکتا ہے، تو اس صورت میں بہت سے وکلا کی یہ رائے ہے کہ یہ مسئلہ اگر بین الاقوامی عدالت انصاف یا کسی اور بین الاقوامی فورم پر اٹھایا جاتا ہے، تو پھر نہ صرف تمام کارکنان کو اصل رقم بلکہ اس کے ساتھ 6 سالہ تاخیر کو بھی لیا جائے گا اور شاید ہر کارکن کو دوگنا زیادہ ادائی کی جائے۔ کیا ہماری حکومت، سعودی اعلا اربابِ حکومت کے سامنے سفارت کاری اور احترام سے یہ آپشن رکھ سکتی ہے؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، اگر ہماری حکومت مکمل سنجیدگی سے یہ مسئلہ براہِ راست سعودی حکومت کے سامنے رکھے۔ یہ رقم بے شک کروڑوں میں ہے، لیکن سعودی ریاست کے سامنے اس رقم کی کلی طور پر کوئی حیثیت نہیں۔ وہ بہ یک جنبشِ قلم اس کو ادا کرنے کی مکمل استطاعت رکھتے ہیں۔ اب یہ رقم سعودی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ اس میں صرف سعودی عدالت کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ مذکورہ ’’سعودی اوجر‘‘ نامی کمپنی کے اربوں کے اثاثہ جات اب براہِ راست سعودی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ ان کو بیچنے کا اب کلی اختیار سعودی حکومت کے پاس ہے۔
میری اطلاع کے مطابق صرف ریاض، جدہ، دمام اور مدینہ میں وہ قیمتی جگہیں جہاں کمپنی کے کارکنان کے رہائشی کیمپ فیملی اور سنگل تھے…… یا کمپنی کے دفاتر اور سٹور وغیرہ تھے، اربوں ریال کی مالیت رکھتے ہیں۔ یقینا ان کو فروخت کرنے کا حق اب سعودی حکومت کے پاس ہے، تو سعودی حکومت کو کیا یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ آپ ان اثاثہ جات کو فروخت کریں اور ملنے والی رقم سے ان غریب کارکنان کی ادائی کریں کہ جن کے بقایا جات گذشتہ 6 سال سے آپ کے پاس باقی ہیں۔ ضرورت ہے صرف ہمت کی، جرات کی، انصاف کی اور سب سے بڑھ کر اپنے عوام کی ضرورت کے خیال کی ۔ آخر ہماری وزراتِ محنت و سمندر پار پاکستانی کس مرض کی دوا ہے؟ اس پر قوم کا سالانہ کروڑوں روپیہ کس وجہ سے خرچ کیا جاتا ہے!
ہم محترم وزیراعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوراً وزارتِ سمندر پار پاکستانی کو ہدایت کریں اور ان غریب مظلوم کارکنان کے مسئلے کا حل کر کے غریبوں کی دعا اور اﷲکا قرب حاصل کریں۔
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔