علمائے کرام کا مقام و مرتبہ

ہرہوش مند مسلمان کو اس بات کا علم ہے کہ ایمان قبول کرلینے کے بعد سب سے اہم چیز علمِ دین ہے۔ کیوں کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ومقصود ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال آتا ہے، اور جن پر دین کی اشاعت و حفاظت کا مدار ہے، وہ دین کے علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے کتاب الایمان کے معاً بعد علم سے متعلق احادیث کو جمع فرمایا ہے اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے صاحب مشکوٰۃ علامہ بغوی نے بھی اپنی تالیف مشکوٰۃ شریف میں کتاب الایمان کے بعد کتاب العلم کو جگہ دی ہے۔
چوں کہ اللہ تبارک و تعالا کے نزدیک علمِ دین بہت ہی افضل شے ہے، لہٰذا صاحبِ علم کا بھی مخصوص ترین مقام ہے۔ قرآن پاک میں باری تعالا کا ارشاد ہے: ہَلْ یَسْتوی الذینَ یَعْلَمُون والذین لا یعلمون۔ یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہوجائے، کتنی ہی زیادہ عبادت و ریاضت کرلے لیکن وہ صاحبِ علم کے مقام کو پالے یہ ناممکن اور محال بات ہے۔
اللہ تعالا نے عالمِ دین کی عزت و توقیر کے لیے نیز اس کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کے لیے ساری کائنات کو لگارکھا ہے۔ اسی کے ساتھ میدانِ محشر میں اس کو ایسے انعامات سے سرفراز کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ جن کو سن کر فرشتے تک رشک کرتے ہیں لیکن جس طرح اہلِ علم کا بلند و بالا مقام و مرتبہ ہے۔ اسی طرح ان کی ذمہ داریاں بھی بہت نازک ہیں، جس طرح ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر بے شمار بشارتیں ہیں۔ اسی طرح مفوضہ ذمہ دار ی سے کنارہ کشی کی صورت میں ان کے لیے سخت ترین وعیدیں بھی ہیں۔ ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علمائے کرام اس دنیا کے اندر قابلِ رشک بن کر رہتے، لیکن آج اہلِ علم کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مقام و مرتبہ کو فراموش کرکے، اپنی فضیلتوں و عظمتوں کو نظر انداز کرکے، نیز کوتاہیوں کی صورت میں وارد شدہ وعیدوں اور دھمکیوں سے تغافل برت کر، ان کاموں میں لگا ہوا ہے جن سے پورے طبقۂ علما کی جگ ہنسائی ہورہی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بے مصرف اور بے فیض چیز سمجھی جارہی ہے، تو یہ اہلِ علم کی جماعت ہے۔ حالاں کہ اس جماعت کو حضرت محمدؐ نے دنیا میں لاجواب زندگی گزارنے کا ایسا بہترین نسخہ بتایا تھا جس پر یہ حضرات عمل کرتے، تو ساری کائنات ان کے قدموں میں جھک جاتی۔ آقاؐ نے اس جماعت کو اہلِ دنیا کے سامنے کاسہ گدائی لے کر پھرنے والا راستہ نہیں بتایا تھا، بلکہ ان کو سرداروں اور سربراہوں کی طرح جینے کا سلیقہ عطا فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے حضورؐ کے فرمان کے مطابق زندگی گزاری۔ دنیا والوں نے ان کو اپنے سروں پر بٹھایا اور آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی جولوگ استقامت کے ساتھ آقاؐ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا ان کے سامنے ذلیل ہوکر آرہی ہے۔ اور یہ دنیا کو اپنی ٹھوکروں سے مار رہے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں آقاؐ کے چند فرامین کو جمع کیاگیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص بھی علم کی کسی طور پر بھی خدمت کررہا ہے، اس کو اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور وہ آقا کے فرمان کے مطابق اپنی زندگی ڈھال کر اپنا کھویا مقام حاصل کرسکے اور دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کو اپنا مقدر بنالے۔
٭ حصولِ علم میں مشغول رہنے والے کے لیے بشارت:۔
طالب علم ہو، عالمِ دین ہو، یا ان کے علاوہ دینی مشغلہ رکھنے والا کوئی بھی شخص ہو، اگر وہ علمِ دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے، تواس کے لیے حضرت محمدؐ کی بے شمار بشارتیں ہیں۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:لَنْ یَشْبَعُ الْمُومِنُ مِن خَیْرٍ سَمِعَہُ حَتّٰی یکونَ مُنْتَہَاہُ الجنَّۃَ مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، آپؐ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلبِ علم میں لگا دی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔
اس حدیث کے پیشِ نظر بہت سے اولیائے کرام ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے۔ حدیث میں طلبِ علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے طلبِ علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:جو شخص طلبِ علم کے لیے نکلا، تو وہ جب تک واپس نہ آجائے…… اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی طرح ہے؛ کیوں کہ جس طرح مجاہد، اللہ کے دین کو زندہ کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے، اسی طرح طالبِ علم بھی احیائے دین کے مقصد سے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے؛ لہٰذا فرمانِ نبویؐ کے مطابق طالب علم گھر واپس آنے تک مجاہد کے مانند ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طلبِ علم کے بعد گھر لوٹنے سے طالبِ علم کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ حصول علم کے بعد اب وہ عالمِ دین ہوگیا، اور عالمِ دین ہونے کی وجہ سے وہ انبیا کا وارث بن گیا۔ طلبِ علم کا اس قدر فائدہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا:مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کفَّارَۃً لِمَا قَضٰییعنی۔ طلبِ علم کی وجہ سے ماضی میں کیے ہوئے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ گناہوں سے یا تو صغیرہ گناہ مراد ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ طلبِ علم کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سارے گناہ زائل ہوجاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ طلب علم کے نتیجہ میں جنت کی بشارت بھی ہے۔ مجاہدوں جیسا ثواب بھی ہے اور ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کی بخشش کا پروانہ بھی ہے۔
٭ مسافرانِ محبت ہمیں دعا دینا:۔
دین میں بصیرت بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔ اللہ کے نبیؐ جن کی سچائی اور راست گوئی کی دوست و دشمن ہر شخص نے تصدیق کی اور جن کی ہر بات کے واقع کے مطابق ہونے کا یقین ہر مسلمان کے عقیدہ کا جز ہے، انھوں نے فرمایا:مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِیْ الدِّیْن۔ اللہ تعالا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، اس کو دین کی بصیرت عطا فرماتے ہیں، اس حدیث سے نہ صرف تفقہ فی الدین کی عظمت معلوم ہوئی؛ بلکہ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ ایسا کمال ہے جو اللہ تعالا ہر کس و ناکس کو نہیں عطا فرماتے۔ لہٰذا جس کو دین کی بصیرت حاصل ہوجائے، اس کو اپنے آپ کو نہایت خوش نصیب سمجھنا چاہیے اور اس نعمت پر اللہ تعالا کا شکر بجا لاتے رہنا چاہیے۔ نبی کریمؐ کی اس بشارت کی بنا پر پورے اطمینان سے یہ بات کہی جاسکتی ہے، ایسے تو کوئی انسان یہ نہیں بتاسکتا کہ خدا وندِ قدوس کااس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا، لیکن فقیہ اس حدیث کے پیشِ نظر یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالا کا میرے ساتھ خیر کا ارادہ ہے۔ کیوں کہ تفقہ فی الدین عطا ہونا یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ نے میرے لیے خیر کا ارادہ فرمارکھا ہے؛ لیکن اس بشارت کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت حسن بصری کی صراحت کے مطابق فقیہ وہ ہے جو دنیا سے کنارہ کش ہوکر فکرِ آخرت میں لگا رہتا ہو، ہمیشہ دینی معاملات اس کے مدنظر رہتے ہوں اور اپنے رب کی اطاعت میں مشغول رہتا ہو۔ جب کوئی اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرلے اس کے بعد ہی اس کو اپنے آپ کو اس بشارت کا مستحق سمجھنے کا حق ہے۔
٭ علم سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے:۔
کون ایسا انسان ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی خوبی اور اچھائی نہ ہو۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ اچھائیاں ضرور ی ہوتی ہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی خوبیوں میں نکھار پیدا کرنا چاہتا ہے، تو اس کو علمِ دین حاصل کرنا چاہیے۔ علمِ دین سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:خِیارُہُمْ فِیْ الجاہِلِیّۃِ خِیَارُہُمْ فی الاِسْلاَمِ اذَا فَقِہُوْا۔ یعنی جولوگ حالتِ کفر میں معزز سمجھے جاتے تھے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں بھی ان کو عزت و توقیر ملے، تو ان کے لیے سب سے مفید نسخہ یہ ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ کے عالم ہوجائیں۔ احکامِ شرعیہ کے علم سے زمانۂ جاہلیت کی خوبیوں میں نکھار آجائے گا اوروہ کام کی بن جائیں گی۔
اس حدیث میں ہر مسلمان کے لیے یہ درس ہے کہ ایک مسلمان کی عزت و عظمت اور اس کی سربلندی کا راز نہ مال و دولت میں ہے نہ حسب و نسب میں؛ بلکہ اس کی خیریت و عافیت اور اس کی ترقی کا انحصار احکامِ شرعیہ کے علم اوراس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔
٭علمِ دین قابل رشک چیز ہے:۔
علمِ دین بہت بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا اس کے حاصل ہونے پر جتنا بھی رشک کیا جائے، کم ہے۔ ایک موقع پر سرورِ کائنات حضرت محمدؐنے فرمایا: دوطرح کے لوگ ہی رشک کے قابل ہیں۔ ایک شخص تو وہ ہے جو مال پاکر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور دوسرے شخص کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الحِکْمَۃَ فَہُوَ یَقْضِیَ بِہَا۔ دوسرا شخص وہ ہے جس کو اللہ تعالا نے دین کا علم عطا فرمایا اور وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اوراس علم کو لوگوں کو سکھاتا بھی ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالا نے علمِ دین عطا فرمایا اوراس نے دین کے سکھانے اوراس کے مطابق فیصلہ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا، تو یہ قابلِ رشک آدمی ہے۔ لوگوں کو اس کے نصیب کی بلندی اور اللہ تعالا کے یہاں اس کے مقام و مرتبہ کی رفعت پر جتنا رشک ہو کم ہے۔
٭علما ہی بقائے علم کا سبب ہیں:۔
یہ علما ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ ان کے دم سے علم کا وجود ہے جب اللہ تعالا اس دنیا سے علما کو اٹھالیں گے، تو علم بھی اٹھ جائے گا اور علم کے اُٹھ جانے کے سبب ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی۔ کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ ہوگا۔ ہر شخص گمراہی کے عمیق غار میں سرتاپیر غرق ہوگا۔ جہلا، علما کی جگہ بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں بتائیں گے؛ جن پر عمل کرکے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس لیے علما کے وجود کو باعث خیر و برکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی ہر ایک کوشش کرنا چاہیے اور ان سے محبت رکھنے کو اپنے لیے سعادت خیال کرنا چاہیے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اِنَّ اللّٰہَ لا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انتزاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعَلَمَائَ۔ اللہ تعالا دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائیں گے کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لے؛ بلکہ علما کو اٹھالینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ جائے گا، یعنی علما زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیاجائے یہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالا حاملین علم کو اٹھالیں گے اور ان کی جگہ دوسرے علما پیدا نہیں ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا بقائے علم کے لیے ہر عالم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بعد کچھ علما چھوڑے۔
٭ عالمِ دین عابد سے افضل ہے:۔
ایسا عالمِ دین جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہو، وہ عابد سے بہت بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کے آگے راتوں کو جاگ کر اللہ اللہ کی ضربیں لگانے والے شب زندہ دار عابد کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیوں کہ عالمِ دین نہ صرف اپنے آپ کو جہنم سے بچاتا ہے…… بلکہ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی جہنم سے بچاکر جنت والے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ آقاؐ نے ارشاد فرمایا:اِنَّ فَضْلَ العَالِم عَلَی العابدِ کَفَضْلِ القَمَرِ لَیْلَۃَ البدرِ عَلیٰ سَائِرِ الکَوَاکِبِ۔ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام تاروں پر بڑائی اور برتری حاصل ہوتی ہے۔ دوسری جگہ عالم کو عابد پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: فضل العالِمِ عَلَی العَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلَی اَدْنَاکمْ۔ عالم کو عابد پر ایسی ہی فضلیت ہے جیسے کہ مجھ کو تم میں سے ادنا شخص پر حاصل ہے۔ اس ارشاد سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جب عالم کوعابد پر اتنی فضیلت ہے، تو عام لوگوں پر عالم کو جو فضیلت ہوگی اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار بات ہے۔ لہٰذا عالم کے ساتھ بدکلامی کرنا اس کے بارے میں فاسد خیال رکھا درحقیقت حضور اکرمؐ کے فرمان کی توہین اور ان کے ارشاد کی پامالی ہے۔ عالم کو عابد پر اس قدر ترجیح دینے کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیا گیا کہ عالم کا فائدہ متعدی ہوتا ہے جب کہ عابد کا فائدہ لازم ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم، شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونے کی بنا پر اس کے دام میں آنے سے خود بھی محفوظ رہتا ہے اور امت کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ جب کہ عابد شیطان کے دام میں الجھے رہنے کے باوجود اپنے آپ کو عبادت و ریاضت میں مشغول خیال کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا:فقیہ واحِدٌ اَشدُّ عَلَی الشَیْطَانِ مِن الفِ عابد۔ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ لہٰذا عام لوگوں کو نیک عالم کا قرب اختیار کرنا چاہیے، تاکہ وہ عالم کی صحبت کی برکت سے شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہیں۔
٭ علما، وارثینِ انبیاہیں:۔
اگرکوئی عالم دین کی قدر و منزلت کا اندازہ کرنا چاہتا ہے، تو وہ اس بات سے کرے کہ علمائے کرام انبیائے عظام کے وارث ہوتے ہیں۔ انبیا کے بعد علما ہی کامرتبہ ہے۔ آقاؐ نے فرمایا:اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَۃُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یورِّثو دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بحظٍ وَافِرٍ۔علمائے دین، انبیائے کرام کے وارث ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیا دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں۔ وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں۔ جس نے دین کا علم حاصل کرلیا، اس نے پورا حصہ پالیا۔ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ بازار سے گزر رہے تھے، لوگوں نے دیکھا کہ وہ تجارت میں مشغول ہیں۔ آپؓ نے فرمایا، تم لوگ یہاں کاروبار میں مشغول ہو اور مسجد میں رسولؐ اللہ کی میراث تقسیم ہورہی ہے۔ لوگ فوراً مسجد کی طرف دوڑگئے، وہاں جاکر دیکھا کہ کچھ لوگ تلاوت میں مشغول ہیں، کچھ حدیث پڑھ رہے ہیں، کچھ دوسرے لوگ علمی مذاکرہ میں مصروف ہیں، کچھ لوگ ذکر و اذکار اور تسبیح و مناجات میں لگے ہوئے ہیں۔ آنے والوں نے یہ دیکھ کر ابوہریرہؓ سے کہا، آپؓ نے تو فرمایا تھا کہ مسجد میں حضورؐ کی میراث تقسیم ہورہی ہے، اور یہاں تو ایسا کچھ نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا جن چیزوں میں یہ لوگ مشغول ہیں، یہی چیزیں حضورِ اکرمؐ کی میراث ہیں۔ یاد رکھو! حضورِ اکرمؐ کی میراث دنیا نہیں۔ حضورِ اکرم کی فدک زمین اسی طرح دیگر انبیائے کرام کسی چھوڑی ہوئی دنیوی چیزوں کا مالک ان کی اولاد میں سے کوئی نہیں بنا، اور اُن چیزوں میں وراثت نہیں چلی؛ بلکہ وہ سب چیزیں تمام مسلمانوں کے لیے وقف ہوگئی تھیں۔ علما اور انبیا کا اتنا قریبی تعلق ہے کہ آپؐنے فرمایا: مَنْ جاء ہُ المَوْتُ وہُوَ یَطْلبُ الْعِلْمَ لِیحْی بہ الاِسْلاَمَ فَبَیْنَہُ وَبَیْنَ النَّبیینَ درَجَۃٌ واحدۃٌ فی الجنَّۃِ۔جس شخص کو موت ایسی حالت میں آئی کہ وہ دین کا علم اسلام کو زندہ کرنے کی غرض سے حاصل کررہا تھا، تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس کے اور انبیا کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا۔
٭ عالم کے لیے ساری کائنات دعا گو رہتی ہے:۔
کائنات کی سب سے عزیز ترین اور محبوب ترین ہستی، دین کے طالب کی ہستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے طالب کے لیے کائنات کی ہر ہر شے مصروفِ دعا رہتی ہے؛ حتی کہ فرشتہ اس کے اعزاز میں پر بچھائے رہتے ہیں۔ آقاؐ نے فرمایا: مَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَطْلبُ مِنْہُ عِلْمًا سَلَکَ اللّٰہُ بِہ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وانَّ المَلاَئِکَۃَ لتَضَعُ اَجْنِحَتہَا رِضًی لِطَالِب العِلْمِ وانّ العالِمَ یستغفرلَہُ مَنْ فی السمٰواتِ وَمَن فِیْ الاَرْضِ والْحِیْتَان فی جَوْفِ المَائِ۔ اس حدیث سے جہاں ایک طرف یہ بات معلوم ہوئی کہ علمِ دین کے لیے سفر کرنا نہایت مستحسن و متبرک فعل ہے، وہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ علم کے لیے سفر کرنا درحقیقت جنت کی راہ پر گام زن ہونا ہے۔ دین کا طالب اتنا معزز ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔ پر بچھانے کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے طالب علم کی نہایت عزت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نہایت تواضع سے پیش آتے ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ وہ حقیقتاً پر بچھاتے ہیں، لیکن ہم اپنی اِن کوتاہ آنکھوں سے اس کا نظارہ نہیں کرپاتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی تمام مخلوق حتی کہ پانی میں مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی رہتی ہیں، لیکن یہ تمام عظمتیں او رفعتیں اور ساری کی ساری سعادتیں و برکتیں اس وقت ہیں، جب علم کا طالب اپنے علم کی حق تلفی نہ کرے ، حصول علم کے دوران میں اور اس کے بعد کی جو ذمہ داریاں ہیں ان سے پہلو تہی نہ کرے ۔
٭ علم کی راہ میں ا خلاص ضروری ہے:۔
علمِ دین حاصل کرنے میں، لوگوں کو اس کے سکھانے میں،اس کے مطابق فیصلہ کرنے میں، غرض یہ کہ ہر وقت اور ہر قدم پر اخلاص لازمی شے ہے۔ علمِ دین اخلاص کے بغیر بجائے نفع کے نقصان کا سبب ہے۔ اگر کوئی طالب علم دکھاوے کے لیے علم کا جوئندہ بنتا ہے، یا کسی عالم نے دنیا داری کے لیے تعلیم و تعلّم کا پیشہ اختیار کررکھا ہے، تو ایسے ریاکار لوگوں کے انجام کے بارے میں آقاؐ نے بہت پہلے فرمایا ہے: رجُلٌ تعلَّمَ القرآن وعلَّمَہُ و قرالقُرآنَ فاُتِیَ بہ فعرّفَہُ نِعَمَہُ، فعرفَہَا، قَالَ فَمَا عَلِمْتَ فِیْہَا․ قَالَ تعلَّمتُ العِلْمَ، وعَلَّمْتُہُ وقراتُ القرآن فیک قَالَ کذبْتَ ولٰکِنَّکَ تعلّمتَ العلْمَ لیُقَالَ اِنَّکَ عَالِمٌ وقراتَ القرآنَ لِیُقَالَ اِنک قَارِیٌ، فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہ فسُحّبَ عَلیٰ وَجْہِہ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ اللہ تعالا کے دربار میں ایک ایسا شخص لایا جائے گا جس نے دین کا علم حاصل کیاتھا، دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی تھی، قرآنِ پاک بھی پڑھا تھا، پہلے اللہ تعالا اس کو دنیا میں اپنی عطا کردہ نعمتوں کو یاد دلائے گا، وہ شخص ان نعمتوں کا اعتراف بھی کرے گا، پھر اللہ تعالا اس سے دریافت فرمائیں گے، تم نے ان نعمتوں کے شکرانہ میں میری رضا کی خاطر کون سے کام انجام دیے، وہ شخص کہے گا کہ مَیں نے دین کا علم حاصل کیا، دوسروں کو اس کی تعلیم دی اور تیری خوشنودگی کے لیے قرآنِ پاک پڑھا۔ اللہ تعالا فرمائیں گے، تونے جھوٹ کہا۔ دراصل علم تونے اس غرض سے حاصل کیا تھا کہ مخلوق کے درمیان تو عالم مشہور ہوجائے اور قرآن پڑھنے کی غرض یہ تھی کہ لوگ تیرے بارے میں کہیں کہ قاری تو فلاں شخص ہی ہے، تو جو تونے چاہا وہ تجھ کو دنیا میں مل گیا، چہار دانگ عالم میں تمہاری شہرت کے خوب ڈنکے بجے، اب یہاں تم کو کچھ بھی نہیں ملے گا، پھر اللہ تعالا اس کے بارے میں حکم دیں گے کہ اس کو منھ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں لے جاؤ اوراس کو منھ کے بل جہنم میں ڈال دو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اخلاص سے عاری، ریاکار عالم، قاری اور عابد وغیرہ کے لیے ایسی ہولناک سزائیں ہیں جن کا اگر دل میں یقین جاگزیں ہوجائے، تو اِن میں سے کوئی ریا کے قریب سے بھی نہ گزرے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ جبُّ الحزن سے یعنی رنج و غم کے کنویں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ جب الحزن کیا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جہنم میں ایک کھائی ہے، جس سے خود دوزخ ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسولؐ اللہ اس میں کون ڈالا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: القرّاءُ المرأونَ باَعْمَالِہِم۔ وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے عمل میں ریا کاری کرتے ہیں۔ شراحِ حدیث نے ذکر کیا ہے کہ اس حکم میں ریاکار عابد، عالم، قاری سب داخل ہیں۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اخلاص کے فقدان کی وجہ سے قیامت کے دن نیک اعمال بھی وبال بن جائیں گے؛ کیوں کہ اللہ تعالا کی نظر میں عظیم سے عظیم ترین کام اور بڑی سے بڑی قربانی بغیر اخلاص کے ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم اور خوشبو کے بغیر پھول۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مجاہدین، علما اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی جو تعریف وارد ہوئی ہے اور ان کے لیے جن بلند درجات کا وعدہ فرمایاگیا ہے، وہ سب اس وقت ہیں جب یہ لوگ اپنی ذمہ داریاں انتہائی اخلاص کے ساتھ انجام دیتے ہوں۔
٭ اخلاص کا حاصل رضائے الٰہی:۔
علما و طلبہ کے لیے علم کی راہ میں اخلاص کو ضروری قرار دیاگیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ علم کی راہ میں جو بھی کوشش اور محنت کریں، وہ صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کریں۔ حصولِ علم اور اشاعتِ علم کا مقصد حصولِ دنیا نہ ہو۔ اگر کوئی حصول دنیا کی غرض سے علم کی راہ میں لگا ہوا ہے، تو اس کے لیے آقا ؐکی سخت وعیدیں ہیں۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:مَنْ تعلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُتْبغیٰ بِہ وَجہُ اللّٰہِ لا یتعَلّمہُ اِلاّ لِیُصِیبَ بِہ عرضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یجِدْ عَرَفَ الجَنَّۃِ یَوْمَ القِیَامَۃِ یعْنِی رِیحَہَا۔جس شخص نے اللہ کی رضا حاصل کرنے والا علم دنیاوی سازوسامان حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا، اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔ علم کی غرض کسب دنیا نہ ہونا چاہیے۔ البتہ اگر اس کے ذریعہ سے بلا طلب دنیا مل رہی ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی طرح کسب معاش کے لیے دنیوی علوم سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں؛ لیکن جن علوم کے سیکھنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی مثلاً کہانت وغیرہ، ان کو کسبِ معاش کے لیے بھی سیکھنا درست نہیں۔ خلاصہ یہ نکلا کہ علمِ دین محض اللہ کی رضا کے لیے سیکھنا چاہیے۔ اس میں کسی طرح کی ریا کاری، کوئی دنیوی غرض اور کسی بھی طرح کا فخر وغرور شامل نہ ہونے دینا چاہیے۔ اوراگر کوئی علم کو اپنی بڑائی اور فوقیت قائم کرنے کے لیے سیکھتا ہے، تو یہ بھی سخت جرم ہے۔ حضورؐنے فرمایا: مَنْ طَلَبَ العلْمَ لِیُجاری بِہ العُلَمَاءَ اَوْ لیُمَارِی بِہ السُّفَہَاءَ اَوْ یَصْرِفَ بہ وجُوہَ النَّاسِ اِلَیْہِ ادخَلَہُ اللّٰہُ النّارَ۔ جس شخص نے علم اس وجہ سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ سے علمائے دین کا مقابلہ کرے، یا بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے، یا لوگوں کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کرے، تو ایسے شخص کو اللہ تعالا جہنم میں ڈال دیں گے۔
٭ عالمِ دین کی فرائض سے غفلت:۔
عالم دین کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دے۔ کیوں کہ علما، انبیا کے وارث ہیں اور انبیائے کرام کا اصل مشن بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ دکھانا تھا۔ لہٰذا علما کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالا سے غافل لوگوں کے دلوں میں اس کی یاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کے لیے بھرپور جد و جہد کریں۔ اگر کوئی عالم اپنے اس فریضہ کو فراموش کربیٹھا ہے، یا اس سے غفلت برت رہا ہے، تو اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے حساب سے دین کو ڈھارہا ہے۔ حضرت زیاد ابن جدیر کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟ مَیں نے کہا نہیں! تو آپ نے فرمایا:یَہْدمُہُ زلۃ العَالِمِ۔ عالم کا پھسلنا اسلام کو ڈھادیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عالم اگر اپنے فرائض سے غافل ہوکر، خواہشِ نفس پر عمل کرنے لگے، تو اس کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی احکامِ اسلام پر عمل ترک کردیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی اور اسلام منہدم ہوجائے گا۔
٭ علم چھپانا سخت گناہ ہے:۔
جو شخص دین کا عالم ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ دوسروں کو سکھائے۔ اگر لوگ اس سے فیض نہیں حاصل کر پا رہے، تو صاحبِ علم کو سمجھنا چاہیے کہ اس کا علم نفع بخش نہیں۔ اگر کسی عالم سے کوئی دینی بات پوچھی گئی اور اس نے جاننے کے باوجود لوگوں کو مطلع نہیں کیا، تو ایسے شخص کے بارے میں آقاؐ کا فرمان ہے کہ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہُ، ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِن النَّارِ۔ جس شخص سے علم دین کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے جاننے کے باوجود چھپایا، تو ایسے شخص کو قیامت کے دن آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ قیامت کے دن اس کو اتنی سخت سزا اس وجہ سے دی جائے گی کہ اس نے علم کے مقصد نشرواشاعت کو زائل کردیا۔ اس نے معلوم شدہ بات میں سکوت اختیار کرکے دنیا میں اپنے منھ میں لگام ڈالی۔ لہٰذا آخرت میں آگ کی لگام اس کے منھ میں ڈالی جائے گی۔ اسی وجہ سے ہر خاص و عام کو خوب متنبہ رہنا چاہیے، جو شخص بھی اس سے دین کی کوئی ضروری بات پوچھے، تو اگر صحیح طور پر جانتا ہے، تو اس کو بتانے سے ہرگز ہرگز دریغ نہ کرے؛ تاکہ اس وعید کا مستحق نہ بنے۔
٭ علم کو صلاحیت کے مطابق سکھانا چاہیے:۔
عالمِ دین کو خود علم کی وقعت اور عزت کرنا چاہیے۔ علم کو سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات سے بھی بہتر سمجھنا چاہیے جس طرح ایک دنیا دار آدمی کبھی کتے اور خنزیر کی گردن میں ہیرے جواہرات کے زیور نہیں ڈالتا؛ اسی طرح علمائے دین کو بھی چاہیے کہ ناقدروں کو علم نہ سکھائیں۔ مسئلہ بتادینا یہ دوسری بات ہے؛ لیکن علم سکھانا اور علمی نِکات بتانا یہ دوسری چیز ہے۔ مسئلہ تو جوبھی دریافت کرنے آئے، اس کو اس کے فہم کے اعتبار سے بتادینا بہتر ہے؛ لیکن جہاں تک علمِ دین سکھانے کا تعلق ہے؛ تو وہ صرف قدردانوں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ اسی طرح کسی شخص کی صلاحیت سے بڑھ کر، اس کو علم سکھانا بھی علم پر ظلم کرنا ہے؛ جو شخص معمولی باتیں نہ سمجھتا ہو، اس کے سامنے تصوف کی باریکیاں بیان کرنا؛ یہ علم کے ساتھ مذاق کرنا ہے۔ آقاؐ نے فرمایا:واضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غیر اَہْلِہ کمُقَلِّدِ الحَنَازِیْرِ الجوہَر والّلوْلُو والذہَبنااہلوں کو علم سکھانے سے اس لیے منع فرمایا کہ وہ علمی باریکیوں کو سمجھ نہیں سکیں گے، اور بغیر سمجھے عمل شروع کرنے کے نتیجے میں شیطان کے دام میں پھنس کر گمراہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا علمائے دین کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ علمِ دین سکھاتے وقت طلبہ و عوام کی صلاحیتوں کا خاص خیال رکھ کر ان کو مستفید کریں۔
٭ علمائے کرام کو اشاعتِ حدیث کا خاص خیال رکھنا چاہیے:۔
آقا ؐکے فرامین کو یاد کرنا اور ان کو لوگوں تک پہنچانا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ اس امت کے سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے اس سعادت کا اپنے آپ کو مستحق بنایا ہے اور ساری زندگی اللہ کے نبیؐ کے فرامین کی خدمت میں گزار دی۔ یہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:نَضَّر اللّٰہُ اِمْراءً سَمِعَ مِنَّا شَیْءًا فبَلَّغَہُ کَمَا سَمِعَہُ ۔ اللہ تعالا اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے مجھ سے کچھ سنا، پھر جس طرح سے اس نے سنا تھا، اسی طرح دوسرے تک پہنچا دیا۔ اللہ کے نبیؐ نے اپنے فرامین کی اشاعت کرنے والے کے لیے یہ دعا کی ہے۔ بعض محققین فرماتے ہیں کہ حضورؐ کی یہ دعا فوراً قبول ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی خدمت کرنے والوں کے چہروں پر نورانیت رہتی ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:مَنْ حَفِظَ عَلیٰ اُمَّتِی اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا فِیْ اَمْرِ دِیْنِہَا بَعَثَہُ اللّٰہُ فَقِیْہًا وکنْتُ لَہُ یَوْمَ القِیَامَۃِ شَافعًا وشہیدًا۔ جس شخص نے میری امت کے نفع کے لیے دینی امور سے متعلق چالیس حدیثیں یاد کرلیں، تو اللہ تعالا آخرت میں اس کو فقیہ بناکر اٹھائیں گے اور مَیں اس کی شفاعت کرنے والا اور اس کی نیکیوں پر گواہی دینے والا ہوں گا۔ حفظ حدیث اور نشر حدیث کرنے والے کے لیے آقاؐ نے خود شفارش کی ذمہ داری لی ہے اور اس بات کی بشارت دی ہے کہ اللہ تعالا اس کو فقیہ بناکر اٹھائیں گے۔
ان تمام بشارتوں کے باوجود اہلِ علم کا ایک بہت بڑا طبقہ علمِ حدیث سے تغافل برت رہا ہے۔ اس طبقہ نے صرف حدیث کا پڑھ لینا ہی کافی سمجھ لیا ہے۔ حدیث کے یاد کرنے اوراس کے پھیلانے کی طرف کوئی قابلِ ذکر توجہ نہیں۔ اگرکسی شخص کی یہ خواہش ہے کہ قیامت کے روز اس کا شمار فقیہوں میں ہو، تو اس کو اولین فرصت میں کم از کم چالیس اَحادیث یاد کرکے لوگوں تک پہنچانے کی تگ و دو کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ حدیث کے انتخاب اور اس کے یاد کرکے روایت کرنے میں پوری احتیاط برتنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ موضوع روایات یا منسوخ و متروک روایات یاد کرکے اس کو نشر کردے اور بجائے فائدہ کے نقصان اٹھانا پڑجائے۔ اس سلسلہ میں حد درجہ احتیاط لازم ہے۔ اسی وجہ سے آقاؐ نے فرمایا: اتَّقو الحَدِیْثَ اِلاَّ مَا علِمْتُمْ فَمن کذبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّار۔ آقاؐنے فرمایا مجھ سے حدیث روایت کرنے سے بچو۔ صرف وہی حدیث نقل کرو جس کے بارے میں تم کو یقین ہو کہ یہ میری حدیث ہے، جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا، تو اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ لہٰذا احادیث یاد کرنے اور ان کو نقل کرنے میں یا تو کسی حدیث کی معتبر کتاب کا انتخاب کرنا چاہیے یا پھر کسی ماہر عالم کی طرف رجوع کریں۔ اور عام علما کو اگر کسی چیز میں تشویش ہو، تو وہ راسخ فی الدین اور جید الاستعداد عالم سے اپنا مسئلہ دریافت کریں۔ اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہہ دینا چاہیے۔ آقاؐ نے فرمایا:فَمَا عَلِمْتُمْ مِنہ فقُوْلوا وَمَا جعَلْتُم فکلوہُ اِلیٰ عالِمِہ۔ یعنی تم لوگ وہی بات کہو جو علما کے ذریعہ سے تمہارے علم میں ہے اور جس بات سے تم ناواقف ہو، اس کو علم رکھنے والوں کے سپرد کردو۔ اپنی طرف سے دین میں دخل اندازی اور اپنے نفس سے حدیث کے بارے میں موشگافی نہ کرنا چاہیے۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔