’’توتا‘‘ ( اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’طوطا‘‘ لکھا جاتا ہے۔
فرہنگِ آصفیہ، نوراللغات، علمی اُردو لغت اور جدید اُردو لغت کے مطابق دُرست املا ’’توتا‘‘ ہے نہ کہ ’’طوطا‘‘ جب کہ اس کے معنی ہیں: ’’ایک پرند کا نام جس کے پَر سبز، چونچ سُرخ اور گلے میں طوق ہوتا ہے۔‘‘
نوراللغات میں باقاعدہ یہ الفاظ درج ہیں: ’’اس کا املا ’’طوطا‘‘ صحیح نہیں ہے۔‘‘
اس طرح پروفیسر نذیر احمد تشنہ اپنی تالیف ’’نادراتِ اُردو‘‘ کے صفحہ نمبر 89 پر اس بارے میں درج کرتے ہیں: ’’پروفیسر اسحاق جلال پوری سے ایک مرتبہ بندہ نے پوچھا: حضرت! اساتذہ توتا ’’ت‘‘ سے لکھتے ہیں۔ فرمانے لگے: توتا ’’ت‘‘ سے ہی ہے۔ کسی کاتب نے طوطا ’’ط‘‘ سے غلطی سے لکھ دیا، تاہم اس کی اس غلطی سے ’’طوطا‘‘ اور بھی خوب صورت ہوگیا اور یاروں کا طوطی تو خوب بولنے لگا۔‘‘
نوراللغات میں ’’توتا‘‘ کے ذیل میں دی جانے والی تفصیل میں ایک اور لفظ ’’توتی‘‘ ہاتھ آتا ہے۔ اس کی تفصیل میں درج ہے: ’’(اسمِ مذکر) ایک خوش آواز چڑیا کا نام جو توت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی ہے اور شہتوت کمال رغبت سے کھاتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ’’توتی‘‘ رکھا گیا۔ اہلِ دلّی مذکر بولتے ہیں۔ عرب نے اس کا املا ’’طوطی‘‘ کرلیا ہے۔‘‘
نوراللغات میں ’’توتی‘‘ کے ذیل میں یہ محاورہ بھی درج ہے: ’’توتی بولنا‘‘
حضرتِ محسنؔ کا یہ شعر بھی ’’توتی‘‘ کے ذیل میں نوراللغات ہی میں درج ملتا ہے:
توتی بولا مرے خامہ کا میانِ شعرا
کیوں نہ ہو آج میں لکھتا ہوں سراپا کس کا
جب کہ فرہنگِ آصفیہ میں ’’توتا‘‘ کے ذیل میں حضرتِ آتشؔ کا یہ شعر کوٹ کرنے لائق ہے:
کلمہ پڑھیں گے دونوں مرے خانہ جنگ کا
زاغِ کماں ہو اس میں کہ توتا تفنگ کا