اسلام آباد میں 600 کے وی مٹیاری تا لاہور ٹرانسمیشن لائن کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا کے باعث سی پیک میں کچھ مسئلے آئے…… لیکن اب سی پیک پرتیزی سے کام جاری ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں پیسا آئے گا، تو قرض دینے کے قابل ہوسکیں گے۔ مہنگائی میں کمی آئے گی۔ سی پیک کی رفتار ان شاء اللہ تیز ہوگی۔ چین پاکستان اقتصادی راہدری (سی پیک) منصوبہ خطے سمیت پوری دنیا میں اکنامک گیم چینجر کے اہم منصوبے کی بنیاد ہے۔ چین کے عظیم منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کی تکمیل کے لیے پاکستان کی جانب سے تعاون کو اُن ممالک نے متنازع بنانے کی کوشش کی جو ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوششوں کو مسلسل ناکام بنانے کی سازشوں و منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں چین کے تعاون سے اس وقت 27 ارب 30 کروڑ ڈالرز مالیت کے 71 منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے، جس میں انرجی پلانٹس، ڈیمز، سڑکوں کی تعمیر اور صنعتی زونز کا قیام شامل ہے۔
مئی2013ء میں چینی وزیراعظم لی کے چیانگ دورۂ پاکستان میں سی پیک منصوبے کی باقاعدہ تجویز رکھی گئی جس کو حکومت نے مثبت ردعمل کے ساتھ قبول کرنے ساتھ اہمیت کا حامل قرار دیا۔ جلد ہی جولائی 2013ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دورۂ چین کے موقع پر ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہونے کے بعد، کچھ سیاسی رکاؤٹوں کے باوجود اب تک اہم منصوبوں پر کام جاری ہے۔ سی پیک کو دونوں ممالک کے درمیان بڑا سٹریٹیجک شراکت داری اور دو طرفہ تعلقات میں کلیدی کردار کا حامل منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور چین نے سی پیک منصوبے میں شراکت کے لیے اپنے پڑوسی ممالک کو بھی دعوت دی، تاکہ عالمی سطح کے اس عظیم معاشی منصوبے پر کسی رکاؤٹ کے بغیر تیزی سے کام کیا جاسکے اور خطے کے عوام کو اس کے ثمرات بھی ملنا شروع ہوجائیں۔
سی پیک منصوبہ کو 2030ء تک مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور خصوصی اقتصادی زون 4+1 کے خاکے کے طور پر گوادر بندرگاہ، توانائی، نقل و حمل کا حامل ڈھانچا اور اکنامک زون سمیت چار مختلف اہم شعبے جات کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ منصوبے میں مالیاتی خدمات، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، تعلیم اور غربت کے خاتمے اور شہری منصوبہ بندی کے تحت دائرے کو بڑھانے پر اتفاق رائے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمے اور امن کی بہتر ہوتی صورتِ حال کے تناظر میں نئی افغان حکومت اماراتِ اسلامی افغانستان کو سی پیک منصوبے میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستانی سفیر منصور احمد خان کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان حکومت کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ منصور علی خان کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) اور افغانستان کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دیگر طریقوں پر افغان طالبان قیادت سے بات چیت کا دور ہوا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ معاشی روابط کا فروغ افغان طالبان قیادت کے ساتھ بات چیت کا اہم عنصر ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ نہ صرف پڑوسی ممالک جن میں وسطی ایشیا کے ملک، چین اور ایران شامل ہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ معاشی واقتصادی رابطوں کے فروغ میں بھی گہری دلچسپی لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ ’’چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ یا ’’سی پیک‘‘ بیجنگ حکومت کے وسیع تر ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو‘‘ کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین پاکستان میں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اہم منصوبے پر شراکت کے حوالے سے باقاعدہ بات چیت کا آغاز 3 ستمبر کو افغان طالبان کے ترجمان نے پاک افغان یوتھ فورم میں خطا ب میں پالیسی بیان دینے کے بعد ہوا کہ’’پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) افغانستان کے لیے اہم ہے۔افغان عوام پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ہماری جانب سے پاکستان کے لیے کوئی مشکلات نہیں ہوں گی۔‘‘
قارئین، توقع کی جا رہی ہے کہ افغانستان کے پالیسی بیان کے بعد پاکستان کی جانب سے منصوبے میں شرکت سے تینوں ممالک کے درمیان جغرافیائی، تجارتی اور صنعتی لحاظ سے باہمی اعتماد کا گہرے تعاون بھی بڑھے گا۔ سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان کو اس وقت بیرونی امداد کی اشد ضرورت ہے، تاکہ چار دہائیوں سے تباہ شدہ معیشت اور انفراسٹرکچر کو بحال کرانے اور تعمیرِ نو کے نئے سفر پر گامزن ہوسکے۔
چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ یقینا افغانستان کے عوام کے لیے صحرا میں نخلستان کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر چین اور پاکستان کے ساتھ اہم اقتصادی منصوبے میں نئی افغان حکومت شامل ہوجاتی ہے، تو اس سے اُن مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جو امریکہ و مغربی ممالک کی وجہ سے پیداہوئے۔ تاہم سی پیک منصوبے میں شراکت سے قبل اس وقت نئی افغان حکومت کو عالمی سطح پر باقاعدہ تسلیم کیے جانے کا مرحلہ حائل ہے۔
چین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تجارتی نوعیت پر تعلقات اور قرضوں کے ساتھ امداد کی فراہمی امریکہ سمیت مغربی ممالک کے لیے پریشان کن صورتِ حال کی صورت میں ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ چین نے 18 برسوں کے دوران میں 165 ممالک کے 13427 انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے 843 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی مد میں قرضے دیے، جن کا بیشتر حصہ چین کے صدر شی جن پنگ کے عظیم معاشی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ سے تعلق رکھتا ہے۔
چین کے تجارتی منصوبے اور اس کے لیے قرض اور امداد کی شکل میں دی گئی رقوم و منصوبہ بندی پر نظر رکھنے والے ’’ایڈ ڈیٹا‘‘ کے براڈ پارکس کا کہنا ہے کہ ایک اوسط سال کے دوران میں چین بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے تحت تقریباً 85 ارب ڈالرز کی اعانت کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں امریکہ ایک سال کے دوران میں کسی بھی بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 37 ارب ڈالرز تک امداد کی حامی بھرتا ہے۔
ایڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین نے ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ کرنے میں تمام ممالک کو واضح طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن جس رفتار سے بیجنگ نے اس کو حاصل کیا ہے وہ ’’غیر معمولی‘‘ ہے۔
امریکہ اور دیگر معاشی قوتوں نے چین کے تجارتی مقاصد کے منصوبہ کے مقابلہ میں تاخیر سے ایک منصوبہ پر کام شروع کرنے کا ارادہ اُس وقت ظاہر کیا جب برطانیہ میں ہونے والے جی سیون اجلاس میں امریکہ نے سی پیک کے متبادل منصوبہ ’’بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ لانچ کیا تھا۔ امریکہ کی خواہش رہی ہے کہ’’چین کی اقتصادی ترقی کا راستہ روکا جائے۔‘‘
جی سیون گروپ میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا، چین اور جاپان شامل ہیں۔ حالاں کہ چین نے اپنے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ میں جی سیون کے ممالک بھی شامل کیے ہیں۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس اوراٹلی چین کے ساتھ اتفاق رائے بھی رکھتے تھے، تاہم بدلتی صورتِ حال کے بعد امریکہ کے منصوبے ’’بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ اور ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پر ان ممالک نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
دوسری طرف چین نے جی سیون اجلاس میں امریکہ کے متبادل پلان پر کڑی تنقید کی تھی۔
افغانستان کے سی پیک منصوبے میں باقاعدہ شمولیت کے بعد یہ اہم منصوبہ سینٹرل ایشیا کو جوڑتا ہوا یورپ اور دنیا کے اہم ممالک کو آپس میں ایک لڑی کی طرح پرو سکتا ہے۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کو مختلف طریقوں سے سست روی اور تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی تیزی جاری ہے اور مفروضوں کی بنیاد پر غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ایسے ترقی پذیر ممالک پر دیگر معاشی قوتوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ چین کے منصوبے کو کامیابی کے راستے میں ڈالنے کی بجائے نقصان و جمود کا شکار کریں۔
وزیراعظم عمران خان یقینی طور پر اُن خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے جس بابت اُن کی حکومت پر نکتہ چینی بھی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ منصوبہ کسی فردِ واحد کا نہیں بلکہ مملکت کا منصوبہ ہے جو ترقی سے محروم علاقوں اور عوام میں خوشحالی لا سکتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے اہم صوبوں میں احساسِ محرومی اور بیرونی عناصر کی مداخلت کا خاتمہ حکومت کی بنیادی ترجیح ہونا چاہیے۔ سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے چین کے تعاون کے ساتھ علاقائی و عالمی سطح پر پھیلائی غلط فہمیاں دو ر کرنا خطے کے تمام ممالک کے حق میں بہتر ہوگا۔
………………………….