انگریزوں کا قائم کردہ ریلوے نظام تباہی کے دہانے پر

ریل گاڑی کا سفر میرے لیے ہمیشہ سے پُرکشش رہا ہے۔ چلتی ہوئی ٹرین کی کھڑکی سے آبادیوں، ویرانوں، جنگلوں، ریلوے پھاٹک اور دریا کے پلوں کا نظارہ کرنا میرے لیے ہربار دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کا رُکنا، مسافروں کا اس میں سوار ہونا اور اترنا اوراُن کے عزیزوں کا انہیں رخصت کرنے یا استقبال کے لیے آنا، ریل کی سیٹی بجنا اور پلیٹ فارم پر لوگوں کی گہماگہمی مجھے زندگی کے سفر کا احساس دلاتی ہے۔
کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں مجھے اپنے بے تکلف دوستوں کے ہمراہ شالیمار ایکسپریس پارلر کے ذریعے بہاول پور سے لاہور جانا بہت اچھا لگتا تھا۔ ریل کے اس سفر میں تاش کھیلنا، ریلوے بُک سٹال سے رسالے خرید کر پڑھنا، سفر کے لیے بنوائے گئے گھر کے کھانے سے لطف اندوز ہونا اور ہر بڑے اسٹیشن پر اتر کر اٹھکھیلیاں کرنا آج بھی میری خوش گوار یادوں کا حصہ ہیں اور کبھی کبھی تو یہ یادیں میری آنکھوں میں ستاروں کی طرح جھلملانے لگتی ہیں۔ رفتار پکڑتی ہوئی ریل گاڑی کی آواز کا رِدھم اور تیز رفتار ٹرین کی سنسناہٹ مجھے اب بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
میرے طالب علمی کے زمانے میں پاکستان ریلوے کی حالت بہت بہتر تھی، مگر اب اس کا بھی وہی حال ہے جو پاکستان کے دیگر محکموں اور اداروں کا ہے۔ ریل کے سفر کا شوق مجھے دنیا کے ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک لے گیا۔ نیویارک سے ٹورانٹو تک ریل کا 12 گھنٹے کا سفر ہو یا لندن سے یورو سٹار ٹرین کے ذریعے پیرس تک کی مسافت، مراکو کے دارالحکومت رباط سے کاسابلانکا تک یا روم سے فلورنس ریل گاڑی کا سفر ہو، ہر سفر نے مجھے نئے نئے مشاہدات اور تجربات سے آشنا کیا۔ برطانیہ سمیت پورے یورپ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹرین کا سفر مقبول اور محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ جدید اور تیز رفتار ٹرینوں میں ہر طرح کے آرام اور سفر کی آسائش کا خیال رکھا گیا ہے۔ آج سے چند برس پہلے تک لندن سے گلاسگو یا ایڈنبرا تک ریل کا سفر 7 سے 8 گھنٹے طویل تھا، مگر اب یہی سفر 4 سے 5 گھنٹے میں طے ہونے لگا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں کارگو ٹرینوں کے ذریعے ہر طرح کے سامان کی ترسیل کی سہولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں 15811 کلومیٹر طویل ریلوے لائنز کا نیٹ ورک ہے جس پر مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں 2566 ٹرین اسٹیشن موجود ہیں۔ برطانیہ میں 1.7 بلین مسافر ہر سال ٹرین کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلا سٹیم انجن بھی 1804ء میں برطانیہ میں ایجاد ہوا تھا جس کے مؤجد ایک انگریز سائنس دان رچرڈ ٹریویتھک تھے۔
1814ء میں ایک اور انگریز سائنس دان جارج سٹیفن سن(George Stephenson) نے سٹیم انجن کو جدید شکل دی اور 1830ء میں پہلی بار دو شہروں لیور پول اور مانچسٹر کے درمیان ریلوے لائن بچھائی گئی۔ انگریزوں نے جب برصغیر میں اپنے قدم جمانا شروع کیے، تو 1845ء میں متحدہ ہندوستان میں ریلوے لائنز بچھانے کے سلسلے کا آغاز کیا۔ انڈیا پر انگریزوں کی حکومت یا تسلط میں ریلوے کے نظام کا بڑا عمل دخل تھا۔ انگریزوں نے بحری جہازوں سے سامان لانے اور لے جانے کے لیے ساحلی شہر ممبئی سے ریلوے کا آغاز کیا۔ آج بھی بھارت میں جو 67956 کلومیٹر طویل ریلوے نیٹ ورک ہے، اس کی بنیاد انگریزوں نے ہی رکھی تھی۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں 8122 کلومیٹر طویل ٹرین نیٹ ورک آیا، جو اَب کم ہو کر 7791 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ ایک زمانے میں اس پر 633 ریلوے اسٹیشن ہوا کرتے تھے جن میں سے اب 559 باقی رہ گئے ہیں اور ان میں سے اکثر کی حالت مخدوش ہے یا پھر بند پڑے رہتے ہیں جب کہ پاکستان میں ریلویز کے محکمے میں ملازمین کی تعداد 72 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں صرف 1043 کلومیٹر ٹرین ٹریک ڈبل ہے اور صرف 285 کلومیٹر راستے پر الیکٹرک ٹرین چلنے کی سہولت موجود ہے جب کہ 557 ٹرین انجنوں میں سے صرف 23 بجلی کے ذریعے چلتے ہیں اور 520 کو ڈیزل سے چلایا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس وقت دنیا بھر میں 80 فیصد سے زیادہ ریل گاڑیاں بجلی سے چلتی ہیں۔ کیوں کہ ٹرین انجن کو چلانے کے لیے ڈیزل ایک انتہائی مہنگا اور ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ایندھن ہے۔
اب بتایا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے منصوبے میں 1872 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی منظوری بھی دی جا چکی ہے۔ ML1 نام کے اس پراجیکٹ پر 7 بلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔
آج کی دنیا میں ہر ترقی پذیر ملک ٹرین نیٹ ورک کی اِفادیت سے آگاہ ہو رہا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک انٹر سٹی ٹرین سسٹم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ شہروں کے اندر (انڈر گراؤنڈ) یعنی زیرِ زمین ٹرین کے نظام کو ترقی دی جا رہی ہے۔ سڑکوں کے متوازی ٹرام چلانے کا سلسلہ عام ہو رہا ہے۔ ٹرین دنیا کے ہر ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سب سے اہم سستا اور آسان ذریعہ ہے۔ انگریز ہمارے ملک میں ریلوے ٹریک کا جو جال بچھا کر گیا تھا، اگر ہم اس میں اضافہ نہیں کر سکتے، تو کم ازکم دستیاب ریلوے لائنز کو محفوظ بنائیں اور ٹرین سروس کو اس نہج پر چلائیں جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں ریلوے کے نظام کو مؤثر طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر پاکستان میں ریلوے کے نظام کو وسعت دینا انتہائی ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو چھوٹے شہروں کے درمیان بھی ریل کے ذریعے سفر کی سہولت میسر آئے اور سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہو۔
برطانوی دارالحکومت لندن جس کی آبادی 90 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ یہاں زیرِ زمین ریلوے کا ایک ایسا مربوط نظام موجود ہے جو اس شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر لندن میں انڈر گراؤنڈ (میٹرو) ٹرین سسٹم میں ذرا سی بھی رکاوٹ آ جائے، تو پورے شہر میں سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک بھی معطل ہونے لگتی ہے۔ انگریز اس قدر دور اندیش ہیں کہ انہوں نے اپنے دارالحکومت میں زیرِ زمین ٹرین چلانے کے منصوبے کا آغاز جنوری 1863ء میں کر دیا تھا جس کے بعد سے اب تک اس کو بہتر سے بہترین بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن کی انڈر گراؤنڈ ٹرینوں میں روزانہ ساڑھے 30 لاکھ سے زیادہ لوگ سفر کرتے ہیں جو مختلف علاقوں میں موجود 270 اسٹیشنوں سے ٹرین میں سوار ہوتے ہیں۔ وسطی لندن میں کنگز کراس، واٹر لو، یوسٹن اور وکٹوریہ چار مرکزی ٹرین اسٹیشن ہیں، جہاں سے مختلف شہروں اور ملکوں کے لیے ریل گاڑیاں روانہ ہوتی ہیں۔ چاروں ریلوے اسٹیشن انتہائی شان دار اور مصروف مقامات ہیں۔ مسافروں کی آمد و رفت کے باعث یہاں ہمہ وقت گہما گہمی رہتی ہے۔ ان اسٹیشنوں پر مسافروں کی آسانی اور آرام کے لیے ہر طرح کی سہولت موجود ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اور اربابِ اختیار دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں، لیکن معلوم نہیں یہ لوگ ترقی یافتہ ملکوں کے ریلوے کے نظام کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنے ملک میں ریلوے کے محکمے میں بہتری لانے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کرتے؟ کاش…… ہمارے ملک میں بھی ایسی تیز رفتار اور آرام دہ ریل گاڑیاں چلنا شروع ہوں کہ لوگ سڑک اور جہاز کے ذریعے سفر کی بجائے ٹرین میں سفر کرنے کو ترجیح دیں۔
برطانیہ میں کئی پرائیویٹ کمپنیاں اپنی اپنی ٹرینیں چلاتی ہیں اور مسافروں کو کم سے کم کرائے میں سفر کی بہترین سہولتیں دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت کی کشمکش جاری رہتی ہے۔
پاکستان میں بھی ریل نیٹ ورک کو موثر، فعال اور سہولتوں سے آراستہ کیا جائے، تو بہت سی انٹرنیشنل کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی لینا شر وع کرسکتی ہیں اور دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ریل گاڑی کا سفر جہاز اور سڑک کے ذریعے سفر سے زیادہ پرکشش اور آرام دہ ہوسکتا ہے۔
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔