پینڈورا پیپرز پر زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں

آج مَیں نے اپنے کالم کو عنوان پھوٹھواری زبان میں دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’سات آٹھ بیس۔‘‘ کیوں کہ آج سے قریب نصف صدی قبل جب پیسے کی اتنی ریل پیل نہ تھی، تو تب ہمارے دیہات میں بڑی تجارت جیسے جانوروں یا فصلوں کی خرید و فروخت کا پیمانہ لاکھوں ہزاروں بلکہ سیکڑوں کا بھی نہ تھا۔ تب یہ 20 کا ہندسہ تھا، یعنی میں کتنی دفعہ اپنے دادا جان کی محفل جس میں ان کے عمر کے لوگ حقہ کے ارد گرد ہوتے تھے، یہ سنا کہ فلاں گائے سات بیس کی ہے۔ آج مونگ پھلی کا ریٹ چار بیس ہے۔ سات بیس سے مراد 140 روپیا اور چار بیس سے مراد 80 روپیا ہوتی تھی۔ تبھی سے یہ ’’آکھن‘‘ یا ضرب المثل بنی کہ ’’ڈاڈے نا سو ستے ویاں ماری کٹی اٹھے ویاں۔‘‘ یعنی زبردست کا سو پانچ کے بجائے سات بیس کا ہوتا ہے اور مار پیٹ کے بعد وہ آٹھ بیس کا کرلیتا ہے۔
اس پر ہمارے ایک دوست چوہدری پرویز حسین صاحب جو علاقہ کی معروف کار و باری سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں، اپنے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مڈل سکول میں ان کا ایک کلاس فیلو ریاض نامی لڑکا تھا۔ ایک دن ان کی ریاض سے بحث ہوگئی۔ مَیں کہتا کہ سو پانچ بیس کا ہوتا اور وہ ضد کرتا کہ سو سات بیس کا ہوتا ہے۔ مَیں بار بار سلیٹ پر بیس ضرب سات لکھتا جواب 140 آتا، جب کہ بیس ضرب پانچ لکھتا، تو جواب 100 آتا۔ لیکن کلاس فیلو بضد تھا کہ سو، سات بیس کا ہوتا ہے اور اس کی دلیل ریاضی کے کسی فارمولے کی بجائے اس دانش پر منحصر تھی کہ اس کو یہ علم ان کے گاؤں کے یونس عرف جونی نامی دانشور نے دیا۔
چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ جب بحث بڑھ گئی، تو استاد کہ تب جن کو ’’ماسٹر جی‘‘ کہا جاتا تھا، متوجہ ہوگئے اور ہم دونوں کو کھڑا کر دیا۔ اب جب استاد جی نے بحث کی وجہ پوچھی، تو مَیں نے بہت فخر سے کہا کہ ماسٹر جی، ریاض سات بیس کو سو کہتا ہے اور میں پانچ بیس کو۔ بس پھر کیا تھا…… ماسٹر صاحب نے ہمیں آگے بلایا اور مجھے حکم دیا کہ مرغہ بن جاؤ۔ میرے واسطے یہ بات حیرت کی تھی۔ کیوں کہ مَیں تو حق پر تھا، لیکن مرغہ میں بنا…… اور استاد نے ریاض کو کہا اس کو مار کر منواؤ۔ ریاض نے پوچھا، ہاں بھئی! کتنے کا سو ہوتا ہے؟ میں نے کہا پانچ کا۔ اور پھر چٹاخ سے جوتا پڑا ۔ اب اس سے پہلے کہ ریاض دوسرا جوتا مارتا، مَیں چیخ پڑا ’’سات کا سات کا۔‘‘ اب ماسٹر جی نے ریاض کو مرغہ بننے کا حکم دیا اور مجھے کہا، اب اول تم اس کو دو جوتے مارو اور پھر استفسار کرو۔ مَیں نے مکمل طاقت سے اول دو جوتے مارے اور پوچھا، اب بتاؤ بیس کتنے کا؟ تو وہ رو کر بولا پانچ کا۔ اب ماسٹر صاحب نے ہمیں نسبتاً محبت سے کہا کہ ’’بچو! یہ سزا تم کو اس بات پر نہیں ملی…… بلکہ کلاس میں شور کر نے پر ملی۔ اب بیٹھو اور میری بات غور سے سنو۔ ریاضی کے کلیہ کی روح اورحقیقت میں سو پانچ بیس کا ہی ہوتا ہے، لیکن معاشرتی طور پر جس کے پاس طاقت ہو، وہ اپنی مرضی سے کتنے بیس کا سو ہو……! خود تعین کر لیتا ہے۔‘‘
قارئین، یہ بات آج مجھے یوں یاد آئی کہ ہمارے کچھ نوجوان دوست ’’پنڈورا لیکس‘‘ پر بہت پُرجوش ہیں اور پُرامید بھی…… بلکہ کچھ تو اس بات پر بہت زیادہ جذباتی ہیں کہ پہلی مرتبہ جرنیلوں کے اثاثہ جات پر بات ہوئی۔ اﷲ کرے کہ ایسا ہی ہو…… اور کرپٹ عناصر کو کٹہرے میں لایا جائے…… لیکن تجربہ یہی بتاتا ہے کہ یہاں کتنے کا بیس ہوتا ہے؟ اس کا تعین طاقت والے کرتے ہیں۔
ویسے میں ذاتی طور پر ان لیکس بارے کوئی خوش گمانی نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ لیکس بس یہ بتاتی ہیں کہ کس کے پاس کتنی دولت ہے؟ لیکن یہ دولت کیسے بنی، کیسے شفٹ ہوئی، کیا یہ واقعی جائز طریقہ سے بنائی گئی یا ناجائز……؟ اس پر لیکس خاموش ہیں۔ اب زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا…… کچھ دن یہ مسئلہ قابلِ بحث رہے گا۔ پھر کسی اور وجہ سے پس منظر میں چلا جائے گا…… یا بہت ہوا، تو اس پر انکوائری کمیشن بنے گا اور اس کا سامنا آف شور کمپنی بنانے والوں کے لیے کرنا قطعی مشکل نہیں…… بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ اب ان کو ایک اخلاقی طور پر توجیح مل جائے گی اور قانونی طور پر پروانۂ بے گناہی۔ کیوں کہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص ورجن آئی لینڈ بہاماس جیسے دور دراز جزیروں اور عیاشی کے اڈوں والی جگہ جا کر ایک آف شور کمپنی یہ سوچ کر بناتا ہے کہ اس سے اول پیسا بِنا ٹیکس دیے قانونی کروائے گا۔ پھر اس کو برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں بہت آرام سے قانون کے مطابق شفٹ کرے گا، وہاں کاروبار کرے گا، پھر ڈالروں اور پونڈوں کو پاکستان بھیج کر اربوں روپیا حاصل کرے گا، وہ اتنا احمق نہیں ہوتا کہ وہ ان خدشات کو نظر انداز کر دے کہ کل کو اگر یہ بات ’’سکینڈلائز‘‘ ہوتی ہے، تو وہ اس کا تحفظ نہ کرسکے۔
جناب وہ بڑے بڑے پروفیشنل جن میں قانون، معیشت، اکاؤنٹس وغیرہ کے ماہرین ہوتے ہیں، ان کی مہارت کی بڑی قیمت دے کر ان کے مشوروں کے ساتھ یہ کام کیا جاتا ہے۔ اس کے باجود بھی اگر کوئی کمی بیشی رہ جائے، تو اس کے پاس رشوت دینے کی خاطر پیسا بھی بہت ہے۔ سفارش کے لیے اعلا سطح میں بیٹھے اس کے دوست، رشتہ دار بھی بہت ہیں بلکہ اکثر معاملات میں تو صاحب خود کسی موجودہ یا سابقہ کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اور دبانے کے لیے ان کے پاس غنڈوں کی بھی ایک مناسب تعداد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر معاملہ یہاں تک بھی حل نہ ہو…… تو پھر وہ آرام سے ایس ایم ظفر، اعتزاز احسن وغیرہ جیسے وکلا کو کروڑوں فیس دے کر کھڑا کرنے کی سہولت رکھتے ہیں۔ مزید ان کے پاس مفت کے غلام یعنی سیاسی کارکنوں کا ایک جتھا بھی ہوتا ہے، جنہوں نے ان کے ایک اشارے پر امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا کر دینا ہوتا ہے۔ سو اس ملک میں کیا ہونا ہے؟
ماضیِ قریب کی بات ہے آپ نے ’’وکی لیکس‘‘ دیکھیں۔ پھر ’’پانامہ لیکس‘‘ کا شور سنا، کیا ہوا؟ نتیجہ وہ صفر۔ ’’پانامہ لیکس‘‘ میں پانچ سو پاکستانیوں کے نام تھے۔ کسی ایک بارے سنا کہ اس سے کوئی برآمدگی ہوئی، کسی کو سزا ہوئی؟
ہمارے تحریک انصاف کے دوست بہت جذبات سے میاں صاحب کی سزا کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ سارا کیس دیکھ لیں، میاں صاحب کو سزا بس ایک تنخواہ پر ہوئی اور وہ بھی انہوں نے لی ہی نہیں۔
قارئین، ویسے میں اکثر لوگوں کو کہتا ہوں تمام تر تحفظات کے باجود بھی ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی سزا کی نوعیت ایک ہی تھی۔ کیس بے شک مختلف نوعیت کے تھے، لیکن سچ یہی ہے کہ دونوں فیئر ٹرائل نہ تھے۔ یعنی مقدمہ سننے والے بینچ کو مقدمہ سننے سے پہلے یہ معلوم تھا کہ فیصلہ کیا ہونا ہے یا کیا کرنا ہے؟ اب اگر بھٹو صاحب پر محمود قصوری کے قتل کا مقدمہ نہ ہوتا، تو کوئی اور کر دیا جاتا لیکن انجام پھانسی ہی تھا۔ اسی طرح نواز شریف پر ’’پانامہ‘‘ نہ ہوتا، تو کچھ اور ہو جاتا۔ مقصد نواز شریف کو نکالنا تھا۔ ’’پانامہ‘‘ تو بس ایک بہانہ ہوگیا۔ کیوں کہ اگر ’’پانامہ‘‘ میں اتنی ہی طاقت ہوتی، تو باقی 499 لوگوں سے بھی پوچھ گوچھ ہوتی۔ یہ سب وقت کا بے کار مصرف اور ایک تماشا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں یہ فرض کرلینا کہ ابھی قانون حرکت میں آئے گا اور قومی چور بے نقاب ہوں گے۔ ملکی دولت واپس ہوگی۔ یہ بس ایک دیوانے کا خواب ہے۔ البتہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے…… لیکن افسوس اس ملک میں وہ آسان ہونے کے باجود عملاً ممکن نہیں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ قوم خود بہتر مقصد کے لیے اور حق کی خاطر کھڑی ہو، مگر قوم خود مدہوش ہے۔
معذرت کے ساتھ جہاں ’’قومی ادارے‘‘ سیاسی انجینئرگ میں ملوث ہوں، جہاں عدلیہ چند سرمایہ داروں کی لونڈی ہو، جہاں میڈیا ہمیشہ برائے فروخت ہو، جہاں سیاسی کارکن بس غلامی میں مطمئن اور خوش و خرم ہوں، حتی کہ جس ملک کے علمائے دین، دانش ور، فن کار تک بک جاتے ہوں، وہاں کیسے کرپشن ختم ہوسکتی ہے؟ اب تو حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا دیکھ لیں، قوم اس پر اصولی طور پر بھی متفق نہیں۔ یہاں ہر کوئی برابری کی بنیاد پر بات نہیں کرتا بلکہ مخالف جماعت والوں پر الزام تراشی کر رہا ہے۔ اگر کسی کو بہت ہی شوق ہے، تو وہ اپنی نحیف آواز کے ساتھ پوری دیانت داری سے کھڑا ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ آج نہیں، تو کل…… کل نہیں، تو پرسوں اس کی آواز پر لبیک کہا جائے گا۔ لیکن ایسا کرنا کسی نے نہیں۔
سو بقولِ چوہدری شجاعت، ’’روٹی شوٹی کھاؤ اور موج کرو۔‘‘ یہ ’’وکی‘‘، ’’پانامہ‘‘ اور ’’پنڈورہ‘‘ ہمارے واسطے معلومات یا شعور نہیں لاتے…… بس ایک دوسرے پر الزامات کا جواز اور عمومی شغل میلہ لاتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا!
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔