اکثر ’’بے پروا‘‘ کی جگہ تحاریر میں عجیب و غریب ترکیب ’’لاپروا‘‘ دیکھنے کو ملتی ہے۔ کچھ لوگ تو اسے ’’لاپرواہ‘‘ تک لکھ دیتے ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں ’’بے پروا‘‘ ہی درج ہے جب کہ اس کے معنی ’’بے نیاز‘‘، ’’بے خوف‘‘ اور ’’غافل‘‘ کے ہیں۔
نوراللغات میں باقاعدہ طور پر یہ وضاحت موجود ہے: ’’لاپروا غلط، بے پروا صحیح۔‘‘
اس حوالہ سے خواجہ حیدر علی آتشؔ کا اک شعر ’’کوٹ‘‘ کرنے لائق ہے:
کاٹ کر پر مطمئن صیاد بے پروا نہ ہو
روح بلبل کی ارادہ رکھتی ہے پرواز کا