ایک دفعہ میں پیرس کے ادبی میلے میں شریک ہوا، تو وہاں میری آمد کی خبرسن کر ایک مصور مجھ سے ملنے آیا اور کہا: ’’مَیں بھی داغستانی ہوں۔ فُلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن 30 برس سے یہاں فرانس میں ہوں۔‘‘
داغستان واپسی پر مَیں نے اس کے عزیزوں اور ماں کو تلاش کیا۔ اس مصور کے بارے میں اس کے خاندان کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ مصور کی ماں یہ خبر سن کر بہت حیران ہوئی۔ اس ماں کو علم ہی نہ تھا کہ اس کا بیٹا ابھی تک زندہ ہے۔ مَیں نے مصور کی ماں کو یقین دلاتے ہوئے کہا: ’’آپ کا بیٹا واقعی زندہ ہے اور فرانس میں خوش و خرم ہے۔‘‘
یہ سن کر اس کی ماں بہت روئی۔ اس دوران مصور کے رشتہ داروں نے اس کے وطن چھوڑنے کا قصور معاف کر دیا تھا۔ کیوں کہ انہیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ان کا کھویا ہوا عزیز ابھی زندہ ہے۔ مصور کی ماں نے مجھ سے پوچھا: ’’بتاؤ ………… اس کے بالوں کی رنگت کیسی ہے؟ اس کے رخسار پر جو تِل تھا، کیا اب بھی ہے ؟ اس کے بچے کتنے ہیں ؟‘‘ اور پھر دفعتاً مصور کی ماں نے پوچھا : ’’رسول ! تم نے میرے بیٹے کے ساتھ کتنا وقت گزارا؟‘‘ مَیں نے کہا: ’’ہم بہت دیر بیٹھے رہے اور داغستان کی باتیں کرتے رہے ۔‘‘ پھر اُس کی ماں نے مجھ سے ایک اور سوال کیا:’’اُس نے تم سے بات چیت تو اپنی مادری زبان میں کی ہوگی نا؟‘‘
’’نہیں………… ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ مَیں ازبک بول رہا تھا اور وہ فرانسیسی۔ وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے ۔‘‘
مصور کی بوڑھی ماں نے یہ سنا اور سر پر بندھے سیاہ رومال کو کھول کر اپنے چہرے کو چھپا لیا جیسے پہاڑی علاقوں کی مائیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر اپنے چہروں کو ڈھک لیتی ہیں۔ اس وقت اوپر چھت پر بڑی بڑی بوندیں گر رہی تھیں۔ہم داغستان میں تھے۔ غالباً بہت دُور دنیا کے اُس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا۔ آنکھوں سے برستے ان انمول آنسوؤں کی آواز سن رہا ہوگا۔
پھر ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا: ’’رسول! تم سے غلطی ہوئی۔ میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی۔ جس سے تم ملے، وہ میرا بیٹا نہیں کوئی اور ہوگا۔ کیوں کہ میرا بیٹا اس زبان کو کس طرح بھلا سکتا ہے جو میں نے اسے سکھائی تھی۔‘‘
مَیں حیرت اور صدمے سے کوئی جواب نہ دے سکا، تو اس بوڑھی عظیم ماں نے کہا: ’’رسول………… اگر وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے، تو میرے لیے وہ زندہ نہیں، مر چُکا ہے۔‘‘
(’’رسول حمزہ توف‘‘ کی شاہکار کتاب ’’میرا داغستان‘‘ سے مقتبس، بہ شکریہ شہزاد حیدر)