قرض ایک مرض ہے جسے ہم نے فرض بنا لیا ہے۔ قرض کفایت شعاری کا دشمن ہے۔ بدترین حالات میں بھی قرض دہندہ مقروض کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو قائم ہوئے 77 سال ہوچکے ہیں۔ دونوں جڑواں بین الاقوامی اداروں کا قیام دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے چند ماہ قبل 1944ء میں عمل میں لایا گیا۔ اگر یوں کہا جائے کہ دوسری جنگِ عظیم کو دو میدانوں میں لڑا اور جیتا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلا میدان جنگی محاذ جب کہ دوسرا مالی محاذ تھا۔
امریکہ اور اس کے حلیفوں نے مشترکہ طور پر دنیا کو قرض کے جال میں پھانسنے کا منظم منصوبہ تشکیل دیا۔ قرض کے ذریعے محکوم بنانے کا نظام بھی نوآبادیاتی اور سامراجی نظا م سے مختلف نہیں، مگر لگتا یکسر مختلف ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے جدید سائنسی اور منظم انداز میں کم زور، غریب اور کم ترقی یافتہ اقوام کے وسائل کو لوٹنے اور ان کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کے لیے ایسا نظام متعارف کر وایا جو دیکھنے میں پُرکشش ہے، مگر درحقیقت یہ نوآبادیاتی اور سامراجی نظام سے بھی خطرناک ہے۔
نوآبادیاتی اور سامراجی نظام میں قومیں اپنے آپ کو محکوم سمجھتے ہوئے آزادی کے لیے کوشش کرتی تھیں جب کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرض کے جال میں نہ صرف پھنستی چلی جاتی ہیں بلکہ انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ان کی آزادی اورخود مختاری سلب کی جا رہی ہے۔ مغرب دوسری اقوام کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے قرض کا موثر ترین ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اپنے قیام سے اب تک مسلسل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے علاوہ ہمیشہ مطلق العنان حکمرانوں کی پشت پناہی اور تقویت کے حامی رہے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے کرسٹوفر مارلو کے مشہور زمانہ ڈراما جیو آف مالٹا (مالٹا کا یہودی) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈرامے کے مرکزی کردار ’’بارابس‘‘ کی طرح یہ ادارے کم ترقی یافتہ اقوام کے وسائل کے ساتھ ساتھ ان کی زبان و ثقافت، تاریخ و تمدن اور نظریاتی بنیادوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک دنیا میں واحد حکومت کے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ان مالیاتی اداروں کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے قرض کے جال کے ذریعے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دنیا کے ہر خطے میں سرائیت کر چکے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو نا چاہیے قرض اور فنڈ کے نا م پر رقم دینے والے سودی جال کے ذریعے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ مالیاتی ادارے اپنے اہداف کے حصول کے لیے شرائط میں مسلسل تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ اب یہ مقروض ممالک کے اہم قومی اداروں کو ضمانت کے نام پر ہتھیانے لگے ہیں۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کی ایک جدید چال ہے جس کے ذریعے آہستہ آہستہ اپنے قدم مضبوط کرنے کے بعد پورے ملک پر قابض ہو جانے کا منصوبہ ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں کا قرض کا یہ جال لوسیفراور ڈاکٹر فاسٹس کے درمیان لالچ اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کا کھیل ہے جس کے نتیجے میں افسوس اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملنا۔ ان مالیاتی اداروں کے قیام سے لے کر اب تک ایک بھی ملک ایسا نہیں ملے گا جو ان کے قرض کے جال سے نکل سکا ہو۔ مستقبلِ قریب میں ان مالیاتی اداروں کو سافٹ منی کے علاوہ ٹیکنالوجی کے ٹائیکون میں تبدیل کردیا جائے گا، تاکہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے منصوبے کو جلدعملی شکل دی جا سکے۔
انسانیت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔ ان عالمی غاصب مالیاتی اداروں کے متبادل متوازن ادارے قائم کرنا ناگزیر ہوچکا ہے، جن کا مقصد انسانیت کی مدد ہو نہ کہ سودی جال میں پھنسا کراس کی آزادی اور خودمختاری سلب کرلی جائے۔
انسانی حقوق کے عالمی مبلغین نے قرض کے ذریعے انسانیت کو اپنا غلام بنا لیا ہوا ہے۔ 70ء کی دہائی میں ترقی پذیر ممالک کا قرضہ اچانک بہت بلند سطح پر پہنچ گیا۔کیوں کہ تب قرض کے لیے شرائط موزوں اور آسان تھیں۔ تیسری دنیا کو تھپکی اور جھانسا دے کر مالیاتی اداروں سے قرض لینے کے لیے آمادہ کیا گیا اور 1970ء میں منافع کو اچانک بہت زیادہ بڑھا دیا گیاجس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی۔
اسی طرح 1980ء کی دہائی سودی نظام اور منافع خوروں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوئی۔ ساوتھ ایسٹ ایشیا اور کوریا کے مالی بحران کے خالق بھی یہی ادارے تھے جس سے ان مالیاتی اداروں کو مزید تقویت ملی۔
1970-80ء کے دوران میں مالیاتی اداروں نے اپنے قرضوں میں بے پناہ اضافہ کیا اور اس کے ساتھ ہی شرحِ سود اور شرائط بھی مزید سخت کر دیں۔ اس عرصہ کے دوران میں ٹرانسفر، نیٹ کیش کی شرح مسلسل مثبت رہی جس کا مطلب ہے قرض لینے والوں نے جتنا قرض لیا تھا، اس سے زیادہ مزید قرض لیا ہے۔ ان ممالک کو مزید قرض لینے پر آمادہ کیا گیا، کیوں کہ شرحِ سود بہت کم تھی۔ اس لیے یہ ممالک باآسانی ان کے جال میں پھنستے چلے گئے۔ چوں کہ خام مال کی قیمت کافی زیادہ تھی، اس لیے مزید قرض لینے سے شرحِ سود میں اضافہ ہوتا گیا۔
1975ء میں شرح سود 1.1 فی صد تھی، جو 1980ء میں بڑھ کر 8.6 فی صد ہوگی۔ ایک سال بعد ایک فیصد مزید بڑھا دی گئی۔ 70ء کی دہائی میں شرحِ سود کو گرا کر تیل کے پیداواری ممالک کو متاثر کیا گیا اور انہیں قرض لینا پڑا۔ 1983ء سے منفی نیٹ کیش کا سلسلہ شروع ہوا جس کا مطلب ہے ’’قرض لینے والا ملک قرض سے زیادہ ادائیگی کرتا ہے۔‘‘ 1983ء سے 1991ء تک مسلسل نو سال تک منفی نیٹ ٹرانسفر نے قرض لینے والے ممالک کو اس دلدل میں مکمل طور پر پھنسا دیا اور یوں وہ اصل قرض سے کئی گنا زیادہ ادا کرنے لگے۔ اسی عرصہ کے دوران میں امریکی ڈالر میں 81 فی صد اضافہ ہوااور قرض لینے والوں کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ بچا۔ یوں نئی شرائط کے ساتھ مزید قرض لیا گیا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ’’ایکسٹرنل پبلک ڈیبٹ‘‘ دو سال کے اندر منفی نیٹ ’’ٹرانسفر کیش‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔
یہ صورتِ حال 1998-99ء میں آکر مزید گھمبیر ہوگئی جب روس، برازیل، ترکی، ارجنٹینا اور پھر 2001ء میں ترکی میں مالی بحران پیدا کیا گیا۔ 2001-4ء کے دوران میں شرحِ سود اور شرائط میں مزید سختی دیکھنے کو ملی اور منفی نیٹ ٹرانسفر کا تسلسل برقرار رہا۔
2004ء کے دوران میں منفی نیٹ ٹرانسفر کیش کی مد میں 21.3 بلین امریکی ڈالر ادا کیے گئے۔ اگر موازنہ کیا جائے، تو اس رقم سے بھی کم ورلڈ بینک سالانہ قرض دیتا ہے۔ 2004-2020ء کے دوران میں ان مالیاتی اداروں نے تو رونگٹے کھڑے کر دیے ہیں اور اعداد و شمار اور شرائط جان کر انسان سر پکڑ کر رہ جاتا ہے۔
اس ساری تفصیل سے عالمی مالیاتی اداروں کی خود غرضی واضح ہے جس کا مقصد سودی نظام کے ذریعے معیشت کی بحالی اور غربت کے خاتمے کا نعرہ لگا کر کم زور اور غریب ممالک کو دیوالیہ کر کے ان پر قابض ہونا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک انسانیت کی آزادی سلب کرنے کے لیے بارابس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور انسانوں کو قرض کی زنجیروں میں مقید کر رکھا ہے۔ ان اداروں کے قرض کے جال سے نکالنے کے لیے مہذب دنیا کو متبادل منصفانہ اور متوازن نظام لانا ہوگا۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔