اس مرکب لفظ کا دُرست تلفظ ’’آخرِکار‘‘ ہے۔ اسے باضافت آخر یعنی لفظ ’’آخر‘‘ کی’’ر‘‘ کے نیچے زیر پڑھنا اور لکھنا چاہیے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں اس کا تلفظ باضافت آخر (آخرِکار) ہی ہے۔ نوراللغات میں یہ تشریح بھی درج ہے: ’’زبانوں پر بلا اضافت (آخرکار) زیادہ ہے۔‘‘ اس کے معنی ’’انجامِ کار‘‘، ’’انت کو‘‘، ’’آخر کو‘‘، ’’حاصلِ کلام‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
نوراللغات میں آخرِکار کی تفصیل میں آتشؔ کا یہ شعر بھی درج ملتا ہے:
آخرِکار تہہِ خاک ہے مسکن سب کا
اہلِ دولت کو بلند آج مکاں کرنے دو
فرہنگِ آصفیہ میں آخرِکار کے ذیل میں ایک نامعلوم شاعر کا شعر کچھ یوں درج ہے:
نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد
آخرِکار کیا کہا قاصد؟