اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے

یہ 90ء کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ لندن میں بی بی سی ریڈیو کی اُردوسروس کے لیے جز وقتی براڈ کاسٹر کی اسامی خالی تھی۔ مَیں نے بھی اس عالمی نشریاتی ادارے سے وابستگی کے لیے درخواست دائر کر دی۔ اُن دنوں میں روزنامہ جنگ لندن میں سب ایڈیٹر کے طور پر کل وقتی ملازمت کررہا تھا۔ رضا علی عابدی اُن دنوں بی بی سی اُردو سروس کے انچارج تھے۔ ساؤتھ ایشین سروس کے سربراہ سیم ملر (SAM MILLER) نے میرا انٹرویو کیا اور ایک خاتون نے میرا آڈیشن لیا اور یوں مجھے بی بی سی میں اُو سی یعنی ’’آؤٹ سائیڈ کنٹری بیوٹر‘‘ کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ نہ تو مجھ سے میری ایم اے صحافت کی ڈگری طلب کی گئی اور نہ صحافتی تجربے کا کوئی سرٹیفکیٹ ہی مانگا گیا، اور نہ کسی سفارش کی ضرورت ہی پیش آئی۔ ریڈیو پاکستان بہاول پور نے میری جو تربیت کی تھی، وہی میرے کام آئی اور بہاول پور کے روزنامہ دستور، روزنامہ کائنات اور روزنامہ جنگ سے وابستگی کے دوران میں، مَیں نے جو کچھ سیکھا تھا، اُسی نے میرے لیے بی بی سی میں جزوقتی ملازمت کا راستہ ہموار کیا۔
اس ذاتی تجربے کو تحریر کرنے کا مقصد اپنے قارئین کو یہ بتانا ہے کہ برطانیہ میں کسی بھی طرح کی ملازمت کے لیے صرف اور صرف اہلیت کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ قابلیت کا لفظ میں نے دانستہ استعمال نہیں کیا۔ کیوں کہ قابلیت، اہلیت کے بعد کا اگلا درجہ ہے۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں اُوورسیز پاکستانیوں کی دوسری اور تیسری نسل یہاں کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ایک سے ایک اعلا عہدوں پر فائز ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ سے لے کر ’’نیشنل ہیلتھ سروس‘‘ تک نسلی اقلیتوں کے لوگ بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہیں لیکن کسی ایک کو بھی اِن ملازمتوں یا عہدوں کے حصول کے لیے کسی قسم کی سفارش یا اقربا پروری کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں ادارے بہت مضبوط ہیں۔ یہاں ادارے اس لیے مستحکم، منظم اور فعال ہیں کہ ان اداروں کو چلانے والے لوگ سفارش اور اقربا پروری کے ذریعے بھرتی نہیں کیے گئے۔ اسی لیے کسی دانشور نے کہا تھا کہ ایک ہزار قابل انسانوں کے مرجانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک نااہل شخص کے صاحبِ اختیار ہوجانے سے ہوتا ہے۔ مہذب معاشروں میں انصاف کے تقاضے صرف عدالتوں میں ہی پورے نہیں ہوتے بلکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر مرحلے پر انصاف اور میرٹ کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ جن ملکوں میں جھوٹے گواہ خریدے اور جعلی ثبوت بنائے جاسکیں وہاں ججوں سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ جہاں قول و فعل کا تضاد روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے اور منافقت کو مصلحت کا نام دے دیا جائے، وہاں قوم کی بجائے ہجوم میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں معاشرتی زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں ادارے مستحکم نہیں اور ادارے اس لیے مستحکم نہیں ہیں کہ جن لوگوں کو ان اداروں کو چلانے، منظم اور مستحکم کرنے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، وہ اہلیت اور میرٹ کی بجائے سفارش، رشوت یا اقربا پروری کی بنیاد پر یہ عہدے حاصل کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ادارے ترقی کرنے اور مضبوط ہونے کی بجائے رشوت کا گڑھ بن جاتے ہیں اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ ’’پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز‘‘، پاکستان ریلویز اور پاکستان سٹیل ملز کے علاوہ بھی اور بہت سے ادارے اس کی بڑی مثال ہیں۔ ہم مسلمان کہنے کی حد تک تو بہت انصاف پسند اور میرٹ کے گن گانے والے ہیں لیکن عملی طور پر ہماری ترجیحات بالکل اس کے برعکس ہیں۔ کردار اور گفتار کے اسی تضاد نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہم اپنے ماضی پر فخر کرتے نہیں تھکتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل بہت ہی تابناک ہے۔ حالاں کہ اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے اپنے حال کو مثالی بنانا پڑتا ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہنے سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلتی۔ شاعرِ مشرق نے تو اُمتِ مسلمہ سے بہت پہلے یہ استفسار کیا تھا کہ
یوں توسید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
اگر ہم صرف سعودی عرب، ترکی، افغانستان ، ایران اور پاکستان کو ہی امتِ مسلمہ کے تصور کی لڑی میں پرونے کی کوشش کریں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارا شیرازہ کس طرح بکھرا ہوا ہے۔ ہم تو ایک دوسرے کو اپنے برابر کے درجے کا مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
توپھر کہاں اُمتِ مسلمہ اور کہاں ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر‘‘ اور کہاں ’’حرم کی پاسبانی!‘‘ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک اُمتِ مسلمہ ہیں، تو انہیں چاہیے کہ وہ سعودی فرمانروا سے پوچھیں کہ انہیں کشمیر میں ظلم و بربریت کیوں نظر نہیں آتی اور وہ بھارتی وزیر اعظم سے مسئلہ کشمیر کے فوری حل کے لیے بات کرنے کی جرأت کیوں نہیں کرتے؟ پاکستان کو اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کے دعویداروں کا خیال ہے کہ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
ویسے تو ہم ہروقت یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن بدقسمتی سے مسلمان ان دونوں معاملات میں پیش پیش ہیں۔ ہمارے بہت سے اُوورسیز پاکستانی یہ دعوا کرتے ہیں کہ برطانیہ اسلام کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ حالاں کہ اس وقت صومالیہ سے افغانستان اور پاکستان تک انتہا پسندی کا سب سے زیادہ خطرہ ان ملکوں کے مسلمانوں کوہے۔ عصرِ حاضر میں دنیا پر غلبے کے لیے سب سے بڑی طاقت علم اور ٹیکنالوجی ہے۔ جس قوم کے پاس بھی یہ طاقت ہے، اُسے کسی دوسرے مذہب کے ملک پر حملہ یا اس کے خلاف سازشیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ برطانیہ میں انتہا پسندی، نسل پرستی یا نسلی منافرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے، تو قانون اسے آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔
برطانیہ میں اسلامی اداروں کے قیام اور مساجد بنانے پر کوئی پابندی نہیں بلکہ یہاں ہر مذہب کے لوگوں کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے مگر کسی کو انتہا پسندی اور کسی دوسرے کے مذہب کو نشانہ بنانے یا اس کے خلاف نفرت پر اکسانے کی اجازت نہیں۔ اگر یہاں کوئی اسلام کے خلاف نفرت یا تعصب پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، تو فوراً قانون کی گرفت میں آ کر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
برطانوی معاشرے کا امن و سکون اسی لیے قائم ہے کہ یہاں ’’جیو اور جینے دو‘‘ کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی ثقافت اور مذہبی اقدار کا احترام کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں بچوں کو پرائمری سکول سے ہی قوتِ برداشت کی تعلیم دی جاتی ہے اور ایک دوسرے کے رنگ و نسل کو قبول کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔
ہمیں غیر مسلم معاشروں کو اسلام دشمن قرار دینے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ ہم اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کو مسلک کی بنیاد پر کافر قرار دینے اور اقلیتوں کو اپنے تعصب کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، تو پھر ہمیں ضرور یہ سوچنا چاہیے کہ اسلام دشمن ہم ہیں، یا غیر مسلم؟ ’’اسلام امن کا پیامبر ہے! ‘‘ اس حقیقت کو محض دعوؤں سے ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے صرف زبان سے کہہ دینا ہی کافی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے عمل اور کردار سے ثابت کرنا ہو گا اور اپنے طرزِ زندگی سے گواہی دینا ہو گی کہ ہم واقعی امن کے پیامبر ہیں۔ مرتضیٰ برلاس نے کیا خوب کہا ہے
ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے
مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتماد کتنا ہے
جب ہم مسلمان ایک دوسرے کے عقیدے، مسلک کو ماننے کے لیے تیار نہیں، تو پھر غیر مسلم ہمارے مذہب کو قبول کرنے اور اس کو امن کا پیامبر تسلیم کرنے پر کیسے تیار ہوں گے۔ ہمارے مدرسے لاکھوں بچوں کو اپنے اپنے عقیدے کی تعلیم دے کر اُن کے ذہن میں دوسرے مسلک کے بارے میں انتہا پسندی کے جو خیالات پختہ کر دیتے ہیں، وہ پوری زندگی انہی خیالات کے زیرِ اثر گزارتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا معاشرہ اتحاد کی بجائے انتشار کی گرفت میں آ چکا ہے اور امن و محبت کی بجائے نفرت اور تعصب تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہم کیسی امتِ مسلمہ ہیں کہ افغانستان کو پاکستان سے زیادہ ہندوستان کے مفادات عزیز ہیں۔ سعودی عرب کو ایران سے زیادہ اسرائیل، امریکہ اور انڈیا قابلِ قبول ہیں۔ اس لیے جب ہم مغرب کو اسلام دشمن قرار دیں، تو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ہم اسلام دوستی کے کون کون سے تقاضے پورے کر رہے ہیں؟
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔