حقوقِ انسانی قرآن و حدیث کی روشنی میں

شریعتِ اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن و حدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے اپنے قول وعمل سے لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی جو بے شمار مثالیں پیش کی ہیں، وہ رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
مگر آج ہم دوسروں کے حقوق تو ادا نہیں کرتے، البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں کرتے، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ چناں چہ حقوق کے نام سے انجمنیں اور تنظیمیں بنائی جارہی ہیں، لیکن دنیا میں ایسی انجمنیں یا تحریکیں یا کوششیں موجود نہیں ہیں، جن میں یہ تعلیم دی جائے کہ دوسروں کے حقوق جو ہمارے ذمہ ہیں، وہ ہم کیسے ادا کریں؟
شریعتِ اسلامیہ کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں یعنی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
٭ عام لوگوں کے حقوق:۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والے ہر شخص پر ضروری ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرے۔ کسی کے مال یا جائداد پر ناجائز قبضہ نہ کرے۔ کسی کو دھوکا نہ دے۔ کھانے کی اشیا میں ملاوٹ نہ کرے۔ شریعتِ اسلامیہ میں کسی کو ناحق قتل کرنا تو درکنار کسی شخص کو مارنا یا گالی دینا یا برا بھلا کہنا بھی جائز نہیں۔ راستہ کا حق ادا کیا جائے۔ غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور کمزوروں کا خیال رکھا جائے۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ والدین، میاں بیوی، اولاد، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔ چناں چہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسروں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر آخرت میں سخت عذاب کی خبر اس طرح دی: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسا اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا، مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے، ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی، تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم ، باب تحریم الظلم)
٭ والدین کے حقوق:۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالا نے متعدد مقامات پر اپنی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرماں برداری کی خاص اہمیت و تاکید اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضی وناپسندید گی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے۔ پوری زندگی والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم ان کی اہمیت کو دوبالا کرتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے والدین کے حقوق کچھ اس طرح تحریر فرمائے ہیں۔
٭ دورانِ حیات حقوق:۔ ان کا ادب و احترام کرنا، ان سے محبت کرنا، ان کی فرماں برداری کرنا، ان کی خدمت کرنا، ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا، ان کی ضروریات پوری کرنا اور وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرنا۔
٭ بعد از وفات حقوق:۔ ان کے لیے اللہ تعالا سے معافی اور رحمت کی دعائیں کرنا، ان کی امانت وقرض ادا کرنا، ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا، ان کی جانب سے ایسے اعمال کرنا جن کا ثواب ان تک پہنچے، ان کے رشتے دار، دوست ومتعلقین کی عزت کرنا، کبھی کبھی ان کی قبر پر جانا ۔
٭ اولاد کے حقوق:۔ نیک اولاد والدین کے لیے عظیم نعمت ہے اور اولادنیک اس وقت ہوگی جب ان کی پرورش اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کی جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہربچہ اپنی فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی،نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
محولہ بالا حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بچہ کا ذہن و دماغ کورے کاغذکی مانند ہوتا ہے۔ اس کے والدین بچپن میں اس کے ذہن و دماغ پر جونقش کردیتے ہیں،اس کااثر آخر عمر تک رہتا ہے۔ والدین کی چند ذمہ داریاں یعنی اولاد کے حقوق حسب ذیل ہیں:
٭ بچہ کی ولادت کے وقت دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہنا۔
٭ تحنیک، یعنی کھجور کو اچھی طرح چبا کر بچہ کے منھ میں ڈالنا او رمسوڑھوں پر رگڑنا۔
٭ ساتویں دن عقیقہ کرنا ( اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے، تو بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔)
٭ لڑکے کا ختنہ کرانا۔
٭ سر کے بال کاٹ کر بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا۔
٭ اچھا نام رکھنا۔
٭ اپنی حیثیت کے مطابق اولاد کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنا۔
٭ بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کرنا۔
والدین کے ذمہ یہ ایک ایساحق ہے جسے اگر والدین نے صحیح طریقہ سے اداکیا، تو اس کے ذریعہ ایک اچھی نسل کی بنیاد پڑے گی اور اگراس حق میں ذرا بھی کوتاہی اورغفلت برتی گئی، توپھرنہ جانے اس کاخمیازہ آنے والی کتنی نسلوں کوبھگتنا پڑے گا؟
اولاد کی تعلیم و تربیت یقیناایک بڑاہی اہم اور نازک مسئلہ ہے، جسے بڑی ہی دانشمندی اورہوشیاری سے انجام دینا چاہیے۔ اولاد کی تعلیم وتربیت میں ابتدائی دنوں میں تو ماں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، لیکن بچہ کی بڑھتی عمرکے ساتھ ساتھ وہ ذمہ داری باپ کی جانب منتقل ہوتی جاتی ہے۔
تعلیم و تربیت کے بعدوالدین کے ذمہ اولاد کا آخری اور اہم حق ان کی شادی کا رہتاہے۔ شادی کے تعلق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں لڑکے اور لڑکی کے انتخاب میں دین داری اور شرافت کوترجیح دینی چاہیے۔
٭ میاں بیوی کے حقوق:۔ دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان شوہر بیوی کا رشتہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دونوں کے درمیان شرعی نکاح عمل میں آئے۔ نکاحِ شرعی کے بعد دو اجنبی مرد وعورت رفیق حیات بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رنج و خوشی، تکلیف و راحت اور صحت و بیماری غرض یہ کہ زندگی کے ہر گوشہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ نکاح کی وجہ سے بے شمار حرام اُمور ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اللہ تعالا نے قرآنِ کریم میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے، یعنی شوہر اپنی بیوی کے لیے اور بیوی اپنے شوہر کے لیے لباس کی مانند ہے۔ شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے میاں بیوی کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا، نیز ایک دوسرے کے حقوق کی ادائی کرنا، سب شریعتِ اسلامیہ کا جز ہیں اور ان پر بھی اجر ملے گا، ان شاء اللہ۔
٭ بیوی کے حقوق:۔ مکمل مہر کی ادائیگی کرنا، بیوی کے تمام اخراجات برداشت کرنا، بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا اور بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کرنا۔
٭ شوہر کے حقوق:۔ شوہر کی اطاعت کرنا، شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت کرنا، گھر کا اندرونی نظام چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا۔
٭ پڑوسیوں کے حقوق:۔ اللہ تعالا قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے، اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یاساتھ کھڑے ہوئے) شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں (یعنی ماتحتوں) کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ کرو)۔ بے شک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ النساء 36)
اس آیت میں اللہ تعالا نے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور مسلمان ہوں یا نہ ہوں۔ غرض یہ کہ پڑوسی ہونے کی بنیاد پر ہر شخص کا خیال رکھنا ہماری دینی واخلاقی ذمہ داری ہے۔ حضورِ اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس کثرت سے پڑوسیوں کے بارے میں احکام لے کر آتے تھے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں حصہ دار نہ بنادیا جائے۔ (ترمذی، البر والصلۃ)
اسی طرح حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ (بخاری)
٭ رشتہ داروں کے حقوق:۔ اسلام نے جہاں عام لوگوں کے حقوق کی ادائی کی بار بار تاکید کی ہے، وہیں پڑوسیوں اور قریبی ودور کے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائی یہاں تک کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں انفرادی زندگی کے ساتھ سماجی زندگی کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں، تاکہ سب کی مشترکہ کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ بنے۔ لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کے خوشی وغم میں شریک ہوں اور جس کا جو حق ہے وہ ادا کیا جائے۔ والدین سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنی اولاد کے حقوق ادا کریں۔ اسی طرح اولاد کو بھی تعلیم دی گئی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ میاں بیوی کے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں بحسنِ خوبی انجام دیں، تاکہ زندگی کا پہیا صحیح سمت چلے۔ پڑوسیوں کا بھی مکمل خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے، حتی کہ کہا گیا ہے کہ پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے والا شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق تمام رشتہ داروں کو ساتھ لے کر چلے۔ آج ہمارے معاشرہ میں یہ بیماری بہت عام ہوگئی ہے کہ معمولی معمولی بات پر رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرلیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ضرورت ہے کہ ہم رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں۔ ان کی خوشی وغمی میں شریک ہوں اور ان کے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ کریں۔ چناں چہ سورۃ النحل آیت 90 میں اللہ تعالا ارشاد فرماتا ہے: بے شک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (اُن کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
نیز نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: قطع رحمی کرنے والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم)
دیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنی سزا کاٹنے کے بعد ہی جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالا ارشاد فرماتا ہے: آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں)کیا خرچ کریں؟ فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ 215)
نیز نبی اکرمؐ نے غریب رشتہ داروں کی معاشی بحالی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقربا کے حقوق کی ادائی کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ چناں چہ آپؐ نے عام افراد پر صدقہ کرنے کے بجائے رشتہ داروں پر خرچ کو بھی ثواب کا ذریعہ ووسیلہ قرار دیا ہے۔
اس سے آگے بڑھ کر آپؐ نے ارشاد فرمایا، عام مسکین پر صدقہ سے تو ایک گنا ثواب پائے گا، لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے، تو اس کو دوگنا ثواب واجر ملے گا۔ ایک اجر تو صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔ (نسائی)
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔