8 اگست کو پاکستان بھر میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کے مختلف عہدوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ عہدے صوبائی اور مرکزی ہوتے ہیں۔ سب کے سب اہم اور کلیدی عہدے ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف عہدوں کے لیے کھڑے امیدوار ان دنوں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ ان کو تین سالوں کے لیے منتخب کیا جائے۔ مختلف شہروں میں انجینئروں کے اجتماعات منقعد کیے جا رہے ہیں۔ ان کو کھانا کھلایا جا رہا ہے، جہاں انجینئر بھوکے شیروں کی طرح کھانے پر جھپٹ پڑتے ہیں اور پوری انجینئرنگ برادری کی ناک کٹواتے ہیں۔ یقین کیجیے پاس ہونے کے بعد کوئی بھی تین سالوں تک چہرہ مبارک کسی کو نہیں دکھاتا۔ جو حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے اس سے برا حال ان عہدیداروں کا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں وہ الیکشن کس مقصد کے لیے لڑتے ہیں؟ عہدے حاصل کرکے کیا کمانا چاہتے ہیں؟ عزت، شہرت یا دولت…… معلوم نہیں!لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان عہدیداروں کے الیکشن سے انجینئروں کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ مَیں اگرچہ خود اس الیکشن سے زیادہ امید نہیں رکھتا، لیکن مجبوراً ووٹ ڈالنا ہوگا۔ کیوں کہ میدان خالی نہیں چھوڑ سکتے۔
اب آتے ہیں انجینئرنگ فیلڈ کے زوال کی طرف۔ اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ انجینئر بے روزگاری کے بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ انجینئرنگ کی تعلیم بہت مشکل ہے۔ مَیں خود میکینکل انجینئر ہوں اور جن مشکل مضامین کو پڑھا ہے، وہ اس فیلڈ کے انجینئر بخوبی جانتے ہیں۔ انجینئرنگ کی تعلیم اتنی آسان نہیں۔ جن دنوں ہم یو ای ٹی پشاور میں سلیکٹ ہوئے تھے، اُن دنوں پورے بنوں سے یو ای ٹی میں پانچ بندے داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تین میکینکل میں اور دو کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ میں۔ اُن دنوں جو بھی یونیورسٹی سے فارغ ہوتا، پہلے ہی مہینے اس کو کہیں نہ کہیں جاب مل جاتی، مگر افسوس کہ پاکستانی ہر فیلڈ کو گندا کرتے ہیں۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ انجینئرنگ فیلڈ میں نوکری جلد مل جاتی ہے اور پُرکشش ہوتی ہے، تو لوگوں کا عمومی رُخ انجینئرنگ کی طرف ہوا۔ ہوا کے رُخ کو دیکھتے ہوئے پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے دھڑا دھڑ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کھولنے کاعمل شروع کیا۔ پبلک سیکٹر جامعات نے سیکنڈ شفٹ اور سیلف فنانس سکیم شروع کیے۔2004ء تک یوای ٹی پشاور میں کل سیٹیں 350 تک تھیں لیکن اس کے اگلے سال سیٹوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ کیا گیا۔ جس کا نتیجہ میرٹ کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ نتیجتاً یو ای ٹی کا معیار گرگیا۔ ا نجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے دھڑا دھڑ کھولنے کے عمل میں پبلک سیکٹر کے وہ جامعات جن کا انجینئرنگ کے فیلڈ سے کوئی لینا دینا نہیں، انہوں نے بھی انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کھولنا شروع کیے۔ گومل یونیورسٹی کا انجینئرنگ کے فیلڈ سے کیا تعلق؟ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا انجینئرنگ سے کیا لینا دینا؟ زبانیں سکھانے والی یونیورسٹی نمل کا انجینئرنگ سے کیا لینا دینا؟ انہوں نے بھی انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کھولنا شروع کیا۔ اس سارے کھیل میں سب سے مکروہ اور گھناونا کردار پاکستان انجینئرنگ کونسل کا رہا، جس نے پیسے کمانے کے لیے اور کرپشن کے لیے ہر ایرے غیرے کو انجینئرنگ کی تعلیم دینے کی اجازت دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انجینئرنگ کا شان دار اور باوقار فیلڈ پاکستان میں شرما گیا۔ جو انجینئر مارکیٹ میں آئے، وہ تعداد میں زیادہ جب کہ معیار میں کم تھے۔
آج پاکستان میں انجینئروں پر لطیفے بن رہے ہیں۔ ان کی بے روزگاری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں جو مَیں یہاں مختصراً بیان کروں گا، لیکن سب سے بڑا سبب خدا کی قسم پاکستان انجینئرنگ کونسل ہے اور اس کے نالائق ترین اور کرپٹ ترین عہدیدار ہیں جنہوں نے پاکستان میں انجینئرنگ کے باوقار شعبے کا بیڑا غرق کردیا۔
پاکستان میں انجینئرنگ فیلڈ کی بربادی کی دوسری بڑی وجہ سیاسی بنیاد پر انجینئرنگ کے ادارے کھولنا ہے۔ یو ای ٹی مردان چند سال قبل یو ای ٹی پشاور کا کیمپس تھا، آج فل فلیج یونیورسٹی ہے۔ یہ سیاسی بنیاد پر بنی یونیورسٹی ہے۔ یہ کیمپس ان دنوں فل یونیورسٹی بنا جب صوبے میں انجینئر بے روزگاری سے بلبلا رہے تھے۔
کچھ مہینے پہلے دیر میں یو ای ٹی کا کیمپس کھلا، تو ایک صوبائی وزیر نے فخر سے پوسٹ لگایا کہ ہم انجینئرنگ کی تعلیم عام کر رہے ہیں۔ مَیں نے کومنٹ کیا کہ جناب سیاسی بنیاد پر انجینئرنگ کے جامعات کھولنے سے انجینئرنگ فیلڈ پہلے سے تباہ ہے، مارکیٹ ڈیمانڈ کیا ہے؟ کتنے انجینئروں کو تحریکِ انصاف کے 8 سالہ اقتدار میں نوکریاں ملیں؟ مَیں چیلنج کرتا ہوں کہ تحریکِ انصاف کے 8 سالہ اقتدار میں صوبے میں انجینئروں کی 100 آسامیاں بھی مشتہر ہوئی ہوں، تو خدا کی قسم میں پھانسی پر لٹکنے کے لیے تیار ہوں، لیکن افسوس یہاں دھڑا دھڑا یونیورسٹیاں کھولی جا رہی ہیں جب کہ معیار گرایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں انجینئرنگ فیلڈ کی بربادی کی ایک اور وجہ پاکستان میں نئے پراجیکٹوں کا نہ ہونا ہے۔ انجینئرنگ فیلڈ پاکستان میں تب ترقی کرتا ہے جب جی ڈی پی میں اضافہ ہورہا ہو۔ یہاں جی ڈی پی ساکن ہے، یا گر رہی ہے۔ ایسے میں دھڑا دھڑ انجینئر پیدا کرنے کا جواز ہی نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تمام انجینئرنگ اداروں پر سیاسی بنیادوں پر نالائق لوگ فائز ہیں، یا ریٹائر ایف اے پاس نالائق جرنیل جن کا انجینئرنگ فیلڈ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں سول سروس کے بارہ گروپ ہیں۔ ایک اگر انجینئرنگ کے لیے مختص ہوتا، تو نندی پور کا پراجیکٹ مینیجر بے اے پاس نہ بیٹھتا۔ واپڈا کا چیئرمین ایف اے پاس ریٹائر نالائق جرنیل نہ ہوتا، لیکن افسوس اس ملک کی ترقی سے کسے سروکار ہے؟
قارئین، قصہ مختصر جہاں انجینئرنگ فیلڈ کی بربادی میں پاکستانی پالیسی سازوں اور سیاست دانوں کا ہاتھ ہے، وہاں پاکستان انجینئرنگ کونسل کے گھناؤنے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ نئے الیکشن کے نتیجے میں بننے والے عہدیداروں سے درخواست ہے کہ ان سے باقی امید ہمیں نہیں۔ صرف اتنا کر دیں کہ کم ازکم پی ای سی کا کارڈ اچھے معیار کا بنا دیں۔ ملنے کے دس دنوں بعد اس سے لکھائی مٹ جاتی ہے۔ دوسرا کام، سی پی ڈی کورسز کی ظالمانہ فیسیں ہے، یہ ختم کر دیں۔ اگر یہ دونوں کام کیے، تو سمجھیں آپ لوگوں نے ہندوستاں فتح کیا۔
باقی کام خدا کی قسم، نہ تم کر سکتے ہو نہ تمہاری نیت و صلاحیت ہی ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔