افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے عمل میں جرمنی اور اٹلی سمیت کئی یورپی ممالک نے اپنی فوج کے آخری دستے بلا کر 20 سالہ مشن کو ختم کردیا۔
جرمن وزیرِ دفاع ’’اینگریٹ کریمپ کارین باوا‘‘ نے جرمن افواج کے افغانستا ن مشن کے خاتمہ کی تصدیق کردی۔ 570 جرمن فوجیوں کی بحفاظت گھر واپسی کے مرحلہ پر جرمن حکام نے سکھ کا سانس لیا۔ انہوں نے اپنے فوجیوں کے انخلا کے عمل کو مخفی رکھا ہوا تھا، تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جاسکے۔
نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ نے افغانستان پر جب چڑھائی کی، تو جرمن فوجیوں کا پہلا دستہ جنوری 2002ء میں کابل پہنچا تھا۔ جرمن حکام افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعیناتی کو مشکل ترین قرار دیتے ہوئے تاریخی باب کا خاتمہ تسلیم کرتے ہیں۔ جرمن، افغانستان کو فتح کرنے کے لیے کئی برس تک ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے ساتھ افغان طالبان کو شکست دینے کی کوشش کرتا رہا۔ 15 ارب ڈالر اور59 جرمن فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود جرمن، امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مل کر بھی افغانستان فتح نہ کرسکا اور آخرِکار دوحہ معاہدے کے نتیجے میں کچھ حاصل کیے بغیرغیر ملکی افواج کو افغانستان سے خالی ہاتھ واپس جانا پڑرہا ہے۔
جرمنی دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے دوسرے طویل ترین، سب سے مہنگے اور خوں ریز عسکری مشن سے دست بردار ہو کر واپس اپنے گھر پہنچ چکا ہے۔ جرمنی نے بین الافغان مذاکرات کی میزبانی کرنے کی پیش کش بھی کی تھی۔ دوحہ معاہدے کے بعد جرمنی، امریکی افواج کے بغیر مزید تعیناتی پر رضامند نہیں تھا۔ جرمن وزیرِ خارجہ ہائیکو ماس، تیس ممالک کے وزرائے خارجہ کی ورچوئل کانفرنس میں واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ امریکہ کے افغانستان میں نہ رہنے سے جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جرمن افواج افغانستان میں ہمیشہ کے لیے نہ ہی متعین رہ سکتی ہیں اور نہ رہنا چاہیے ۔
جرمنی کا افغانستان سے انخلا غیر ملکی افواج کی واپسی کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے۔ افغان سٹیک ہولڈر غیر ملکی افواج کی واپسی کے خواہش مند رہے ہیں لیکن افغانستان کے انفرااسٹرکچر سمیت پورے نظام کو تہہ بالا کرنے والے، جب عالمی تاریخ کی سب سے خوف ناک کارپیٹڈ بمباریاں کررہے تھے اور اپنے لاکھوں فوجی ایک ایسے ملک میں اُتار رہے تھے، جو پہلے ہی سوویت یونین کے ساتھ 20 برس کی جنگ میں تباہ حال ہوچکا تھا اور لاکھوں افغانی ہجرت کرچکے تھے۔ ان حالات کو پیدا کرنے کے بعد انہیں اپنی باحفاظت واپسی سے قبل افغانستان میں مستحکم امن کے لیے فیصلہ کن کردار بھی ادا کرنا چاہیے تھا۔
خیال رہے کہ سوویت یونین کی افواج کا جب جنیوا معاہدہ کے تحت عجلت میں صرف آٹھ مہینے کے اندر 15 فروری 1989ء کو انخلا مکمل کیا، تو وہ افغانستان میں تعمیر نو اور فوجی امداد جاری نہیں رکھ سکا تھا۔ کیوں کہ جہادیوں اور جنگجو مسلح گروپوں کے درمیان اقتدار کے لیے بدترین خانہ جنگی میں اُس وقت زیادہ اضافہ ہوگیا، جب اگست 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بورس یلسن کی زیر قیات رشین فیڈریشن نے فوری طور پر ہر قسم کی امداد بند کردی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ حکومت کے خاتمہ کے بعد حکمت یار، معسود قبائل کے علاوہ دیگر گروپوں کی بدترین خانہ جنگی نے افغانستان میں امن کے تصور کو دھندلا دیا تھا۔ افغانستان کے مدارس سے ایک مرتبہ پھر طالب عملوں نے اس خانہ جنگی کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا اور افغان طالبان کے نام سے معروف مسلح مزاحمت کاروں نے افغانستان میں خانہ جنگی کا قریباً خاتمہ کیا، لیکن نائن الیون کے واقعے بعد امریکہ نے اپنی جنگ میں نیٹو ممالک کو بھی شامل کرکے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کی بنیاد رکھ دی۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کا سلسلہ تیزی سے شروع ہے۔ 70 فیصد سے زائد عمل مکمل ہوچکا ہے، لیکن بعض امریکی حکام سمیت دنیا بھر سے اس تشویش کا اظہار شدت سے کیا جانے لگا کہ امریکہ اور نیٹو انخلا کے بعد افغانستان میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔
جرمنی اپنے تمام فوجیوں کو بحفاظت نکال چکا، تاہم بیس برس کی جنگ میں جرمنی فوجیوں کی انتہائی قلیل تعداد کو نقصان پہنچا۔ امریکہ کی طرح جرمنی، برطانیہ سمیت نیٹو ممالک نے اپنی جنگ خود سے لڑنے کے بجائے افغان عوام کو آگے رکھ کر لڑی۔ 20 برسوں کی اس طویل ترین جنگ میں صرف 59 جرمن اور امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی ہلاک ہوگئے، لیکن امریکہ اور نیٹو کی مسلط کردہ جنگ میں ہزاروں عام افغانی جن کی تعداد 40 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے، پُر تشدد واقعات میں جاں بحق ہوئے۔ لاکھوں افغانی اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ لاکھوں خاندان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ ابھی تک غیر یقینی مستقبل میں گھرے افغانستا ن کا محفوظ مستقبل بنانے کے لیے امریکہ نے اپنی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ کو قابلِ عمل حل کے لیے خاص کردار ادا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ نیٹو ممالک افغانستان میں اُس وقت تک بیٹھے رہے اور مربوط سیاسی حل تلاش کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، جب تک صدر جوبائیڈن نے حتمی اعلان نہ کردیا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس وقت بھی کسی پائیدار حل نکالنے کے بجائے افغانستان میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کررہی ہے۔
افغان طالبان مخالف گروپوں میں مقامی افراد کی بھرتیوں کو باقاعدہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں بھاری معاوضے پر بھرتی کرکے ہتھیار مہیا کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو انخلا کے باوجود بھی مقامی افراد کی جنگجو ملیشاؤں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی، افغانستان کو ایک مرتبہ پھر خطرناک راستے پر لے جاسکتا ہے۔ پہلے ہی ملک کے بڑے حصے میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ اب مقامی افراد کو مسلح کرنے کے عمل سے امن کے لیے تمام تر کوششیں رائیگاں جاسکتی ہیں۔ افغان پارلیمنٹ کے بیشتر اراکین اپنی تقاریر میں نفرت انگیز رویے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو اپنے ہم وطنوں پر ترس کیوں نہیں آتا کہ ان کے فروعی مفادات کی وجہ سے تین نسلیں تباہ و برباد ہوگئیں۔
جرمن کو اپنی فوجیوں کی گھر واپسی مبارک ہو، یقیناً ان کے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو سکون ملا ہوگا کہ جارح پسندوں کے لیے قبرستان کہلانے والے ملک افغانستان سے ان کے پیاروں کی باحفاظت واپسی ہوئی، لیکن چند لمحوں کے لیے انہیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ لاکھوں افغانی اپنے وطن سے دور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنی سرزمین پر موجود افغانی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ انہیں مستقبل میں افغانستان کی صورتِ حال بدترین نظر آرہی ہے۔
جرمن کو افغانستان سے الوادع لیکن کیا افغانستان ہمیشہ بدامنی کا شکار رہے گا؟ اور اس کے ساتھ مہاجرین کو ’’خوش آمدید‘‘ کب کہا جائے گا؟
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔