عالمی یومِ ماحولیات اور درولئی کے جنگلات

ہر سال 5 جون کو پوری دنیا میں ’’عالمی یومِ ماحولیات‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس سال اس کا موضوع ماحول کو بحال کرنا، بڑھانا اور دوبارہ پروان چڑھانا تھا ۔
کورونا وبا کے بعد تو ماحولیات پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے۔ کیوں کہ انسان کی ظالم ترقی نے ماحولیات کو بری طرح برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ موسموں میں بے قاعدہ تغیر آتا رہتا ہے۔ جنگلات ختم ہو رہے ہیں اور یہ اللہ کی بڑی مخلوقات کے گھر ہوتے ہیں۔ جنگلات کے ختم ہونے سے جنگلی حیات کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ساتھ عالمی تپش بڑھ رہی ہے جسے ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے سیلاب زیادہ آتے ہیں اور انسانی زندگی کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
ماحولیات کو بچانے اور کرۂ ارض کے گرم ہونے کو کم کرنے کی سب سے اہم حکمت عملی جنگلات کو نہ صرف محفوظ کرنا بلکہ بڑھانا اور ساتھ گندگی اور آلودگی سے بچنا ہے۔
ہماری تحصیلِ بحرین جو کہ کالام فارسٹ ڈویژن پر مشتمل ہے، جنگلات کے لحاظ سے کافی خودکفیل رہی ہے اور انہی جنگلات کی وجہ سے سوات پورے پاکستان میں اُن ضلعوں میں تیسرے نمبر پہ ہے جہاں جنگلات کا رقبہ زیادہ ہے۔ ہمارے علاقے کے جنگلات ماضی، ماضیِ قریب اور حال میں کافی تباہ کیے جا چکے ہیں۔ اس صوبے کی سابق حکومت نے ’’ملین سونامی ٹری‘‘ منصوبہ شروع کیا تھا اور اب کے وفاقی حکومت نے کسی بلین ٹری منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ پتا نہیں ان منصوبوں میں کس حد تک کامیابی ہوئی، تاہم حالات کچھ بدلے نہیں ہیں۔
جنگلات کے تحفظ کو مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ ہمارے سارے محکموں کی طرح جنگلات کامحکمہ بھی کچھ بہتر کام نہیں کرسکتا۔ اس پہ یہ مصیبت کہ اس ملک میں کچھ خاص افراد اور خاص ادارے باقی سارے اداروں اور محکموں سے اُوپر ہوتے ہیں اور کسی قانون قاعدے کے اندر نہیں آتے۔ تاہم اگر مقامی لوگ ان جنگلات کو اپنا کر ڈٹ جائیں، تو کوئی طاقت ان جنگلات کو نہیں کاٹ سکتی لیکن کیا کریں کہ لنکا کو ڈھانے گھر کے بھیدی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
مجھے انتہائی خوشی ہوتی ہے جب مَیں بحرین گاؤں کے شمال اور مشرق میں اپنی جنم بھومی دیریل (درولئی) گاؤں میں جنگلات کے تحفظ پر مقامی باشندوں کی کوششوں کو دیکھتا ہوں۔ گذشتہ 20، 25 سالوں سے یہاں دیریل کے مقامی لوگوں نے اپنے جنگلات کو بچانے کی خاطر کئی ایسے کام کیے ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے جنگلات میں واقع چراہ گاہوں کو ’’قلنگ‘‘ پر دینا بند کردیا ہے۔ گاؤں سے جنگلات کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے راستوں پہ پہرا دیتے ہیں۔ مقامی لوگ اگر غیر قانونی طور پر درخت کاٹیں، تو اُن پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ جنگلات میں سے جڑی بوٹیوں کے اکھاڑنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کو جنگلات میں تجاوز کرنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ان مقاصد کے لیے انہوں نے ایک تنظیم بنائی ہے جسے اشتراک برائے تحفظِ جنگلات، درولئی کہا جاتا ہے۔ یہ تنظیم محکمۂ جنگلات کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ اپنی طرف سے اس تنظیم اور گاؤں کے لوگوں نے بھرپور کوشش کرکے درولئی کے جنگلات کو 25 فی صد سے زیادہ بڑھایا ہے۔ یہاں جتنے بھی خشک سیلابی نالے تھے، سب درختوں اور جھاڑیوں سے بھر گئے ہیں۔ جنگلات کے اندر جو دوسری اشیا پیدا ہوتی ہیں، ان میں 60 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ جنگلی حیات بڑھ گئی ہے اور ریچھوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ گاؤں اور اس کا یہ تحفظِ جنگلات پورے ملک کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت مقامی لوگوں کے کام کی ایک بہترین مثال ہے ۔
البتہ اب تک کسی نے اس گاؤں کے لوگوں اور اس تنظیم کو نہیں سراہا بلکہ کئی موقعوں پر اس تنظیم کے راستے میں سرکاری اہلکاروں اور ان کے مقامی آلہ کاروں نے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی لیکن ایسی ہر مذموم کوشش کو مقامی تنظیم اور لوگوں نے ناکام بنایا ہے ۔
ہونا تو یہ چاہے تھا کہ یہاں کے لوگوں کو اس کام کے لیے کوئی ایوارڈ ملتا۔ چلیں، ایوارڈ نہ سہی بس ان کے راستے میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔
قارئین، درولئی پورے علاقے میں دوسرے گاؤں کے لیے ایک بہتر مثال بن سکتا ہے۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔