ہندوستان کو اپنی تاریخ کے بحران کا سامنا ہے۔ پہلے معاملہ آکسیجن مہیا کرنے کا تھا لیکن اب معاملہ اس سے بھی بدترین صورتِ حال اختیار کرگیا ہے۔ کیوں کہ اب لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاشوں کو آگ کی نذر کرنے میں ہندو اکثریت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم اقلیت کو اپنے پیارے اور قریبی افراد کی تدفین کے لیے پریشانی لاحق ہے۔ شمشان گھاٹ اب 24 گھنٹے مصروف ہیں۔ قبرستان بھی اب بڑی تعداد میں لاشوں کی آمد کے باعث سکڑ رہے ہیں۔ بات اجتماعی تدفین تک آ پہنچی ہے۔
ایسا کیوں ہوا اور کورونا کی تیسری لہر بڑھنے کی وجہ کیا تھی……؟ ہندوستان نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوا کیا، لیکن کیوں سب سے بڑی جمہوریت اپنے عوام کے لیے کافی کام کرنے میں ناکام رہی؟ مودی سرکار اس انسانی المیہ کے لیے کاغذی بیانات کی حد تک تو تیار تھی لیکن حقیقت میں نہیں۔ مودی سرکار اس وبائی مرض سے لاعلم معلوم ہوتی ہے۔ مودی سرکار کی حکمت عملی اور منصوبوں سے سنجیدگی غائب تھی۔ اب پورا ہندوستان رو رہا ہے اور حکومت اب بھی اس صورتِ حال سے نمٹنے کے قابل نہیں۔ انہوں نے ’’کمبھ‘‘ کے اجتماع کی اجازت دی، جو مثبت تعداد میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔
پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ ہم اب بھی موجودہ صورتِ حال کی سنگینی کو محسوس کرنے کے موڈ میں نہیں۔ ہم اب بھی ہندوستان کی صورتِ حال دیکھ کر کچھ سخت اقدامات اپنانے سے گریزاں ہیں۔ ہم ابھی تک اجتماعات میں مصروف ہیں۔ ہندوستان کی صورتِ حال کو کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر کی ابتدائی یاد دہانی کے طور پر نہیں لے رہے ہیں۔ ذمہ داری کون لے گا؟ این سی او سی، وزارتِ داخلہ، محکمۂ صحت، قانون نافذ کرنے والے ادارے یا کوئی اور……؟ فی الحال موجودہ حالات کی شدت سے کوئی بھی پریشان ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بھارت نے اسے نظرانداز کیا اور بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی اس صورتِ حال سے نمٹنے کے موڈ میں نہیں اور اسے اپنی تاریخ کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کچھ دکان داروں اور سڑک پہ کاروبار کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ کورونا کا کوئی مسئلہ نہیں اور حکومت صرف ان کے کاروبار کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کتنی اعلا سوچ ہے۔ ہم اب بھی اس وبائی حالت کو لطیفے کے طور پرشمار کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس کو سنبھالنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو نہ صرف ہماری حکومت اور ادارے بلکہ عام عوام بھی اس وبا کے نقصانات سے آگاہ نہیں۔ اس مسئلے کو شدت تک پہنچانے کے لیے مقامی تاجروں سے بات کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ عید کے دوران میں لاک ڈاؤن میں طرزِ عمل یہ رہا تھا کہ اگر آپ کسی کو کچھ نذرانہ ادا کرسکتے ہیں، تو شٹر بند ہونے کے باوجود بھی آپ اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے تھے۔ دوسری طرف، اگر آپ کچھ بھی ادا کرنے پر راضی نہیں یا قابل نہیں، توآپ کو سخت لہجے یا بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی مقامی مارکیٹوں میں جمع ہونے والے ہجوم کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ وہ صرف میڈیا میں اپنی موجودگی دکھانے پہ مصر نظر آتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ ہو یا قانون نافذ کرنے والے ادارے، کوئی بھی مقامی بازاروں اور شاہراہوں پہ ہجوم بننے سے روکنے میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا۔
مزید یہ کہ ہم مکمل طور پر دوسرے ممالک سے تحفے اور عطیے میں دی جانے والی ویکسین ڈوز پر انحصار کر رہے ہیں۔ کوویڈ ویکسین کی خریداری کے لیے ابھی تک حکومتِ پاکستان کا کوئی واضح ارادہ نظر نہیں آ رہا۔ اگر ہم سرمایہ کاری ویکسین کی خریداری میں نہیں کر رہے ہیں، تو پھر پوری آبادی کو اس ویکسین کی ایک بھی ڈوز کیسے لگائی جا سکے گی؟ یہ بات غیر یقینی سی ہے۔ اس میں کوئی سوال نہیں کہ ہم عطیات کے ذریعہ پورے پاکستان کو ویکسین کی دو خوراکیں کسی بھی صورت فراہم نہیں کرسکتے۔
کورونا کے خلاف لڑائی میں دلچسپی نہ رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ہم سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کرتے، تو پاکستان کو بھی اس بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت پاکستان سے ہر لحاظ سے آبادی، وسائل اور افرادی قوت میں چار گنا بڑا ملک ہے۔ تو ذرا سوچیے کہ اگر وہ صورتِ حال سے نمٹنے میں ناکام رہا، تو اگر پاکستان میں یہاں کوئی بحران پھیل گیا، تو ہم کیا کر پائیں گے؟ ہم صرف پاکستان اسٹیل مل کے ترک شدہ آکسیجن پلانٹ پر انحصار کر رہے ہیں۔
ہمیں اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ طرزِ عمل اور رویہ کو وسیع پیمانے پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عام عوام مشترکہ کوششوں سے اس وبا کو شکست دے سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر آنے والے دنوں میں صورتِ حال انتہائی خراب ہوجائے گی۔ جیسے جیسے گھڑی کی سوئیاں چل رہی ہیں، وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ہم ضروری کوشش کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ لیکن اب بھی وقت ہے۔ صرف کاغذات پر لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں۔ دانشمندی سے کام کریں۔ دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ حقیقت میں کچھ سختی دکھائیں۔ یہ ایک حقیقی دنیا ہے جس کو انسانی المیے کا سامنا ہے۔ کسی خیالی دنیا سے دور ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے، ورنہ کچھ نہیں ہوگا۔ اگر ہم اس وبائی مرض سے بچ جائیں، تو ہم کسی اور وقت کاروبار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم پریشانیوں کے اس سمندر سے دور ہوجائیں، تو ہم دوبارہ اجتماعات اور پروگراموں کی تنظیمِ نو کر سکتے ہیں۔
رویہ، رویہ اور رویہ ہی ایک چیز ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا کی تیسری لہر کی شدت مہلک ہے۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے۔ آئیے، اپنے پڑوسیوں کی چیخیں سنیں اور جواب میں کچھ سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہم اس وبائی مرض کی تیسری لہر کی زد میں آسکتے ہیں۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔