بھارت کو آج ایسے ہی حالات کا سامنا ہے جیسے کبھی برطانیہ، اٹلی اور سپین کو رہا ہے۔ امریکہ جیسی مضبوط طاقت بھی اس کا شکار ہوئی۔ برطانیہ میں عزیز و اقارب سے ہونے والی بات نے واضح کیا کہ نظام کی مضبوطی سے وہ لوگ بہرحال حکومتی اقدامات سے مطمئن ضرور ہیں، لیکن دوسری طرف بھارت سرکار موجودہ حالات میں یا تو اپنی صلاحیت کے مطابق کام کر نہیں پا رہی یا اس میں اس وبا سے نمٹنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں تھی۔ نتیجتاً پورے ملک میں اس وقت ہنگامی صورتحال ہے۔ پورے بھارت میں کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔ میتوں کو دفنانے کی بات کریں، تو جگہ کم پڑ رہی ہے اور اب تو اجتماعی تدفین کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہوچکی ہیں۔
اس طرح میتیں جلانے کا ذکر ہو، تو اس وقت شمشان گھاٹوں میں رضاکار چوبیس گھنٹے مصروفِ عمل ہیں لیکن اس کے باوجود چتائیں جلانے کے لیے انتظار کی لمبی قطار ہے اور لوگ اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرنے کے منتظر ہیں۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ اس وقت بھی روزانہ لاکھوں نئے مثبت کیسوں کی شرح سامنے آ رہی ہے۔
سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر بھارت سرکار اقدامات کرنے اور اس وبا کا مقابلہ کرنے میں ناکام کیوں ہو رہی ہے؟ کیوں ہمیں بھارتی عوام کی سسکیاں، چیختیں، کربناک دہائیاں سننے کو مل رہی ہیں؟ بھارت کی صلاحیت پہ اس وقت سوالیہ نشان آ چکا ہے۔ کمبھ میلے جیسا بڑا اجتماع وبا کے عروج کے دنوں میں ہونا بھارت سرکار کی یقینی طور پر ایک بہت بڑی ناکامی تھی۔ اب بھارتی عوام نے یہ فرض کر لیا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے، انہوں نے خود کرنا ہے۔ حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آکسیجن مراکز کے باہر بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
بے شک بھارت اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہ دور صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے مزید تباہی لے کر آئے گا۔ یہ تمام حالات بھارت کے ہمسایہ ممالک کے لیے بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں۔ نیپال میں مثبت کیس بڑھنا اس کی ایک مثال ہے۔ اگر معاملات پہ عقل و دانش کے ساتھ فیصلے نہیں کیے گئے، تو یہی حالات پاکستان میں بھی ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کو بھارت کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا فوری جواب یہ ہے کہ پاکستان کو وہ اقدامات کرنا ہوں گے جو بھارت نے نظر انداز کیے۔ پاکستان میں پہلے ہی روزانہ اموات 150 کا ہندسہ عبور کرچکی ہیں۔ موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ ایس اُو پیز پہ پابندی سختی سے کروائی جائے۔ ویکسی نیشن کا عمل فوری طور پر تیز کرنا ہوگا۔ کیوں کہ ہماری ازلی سستی اس وقت آڑے آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ لاک ڈاؤن ایک دن کا لگائیں یا ایک ہفتے کا، ایک مہینے کا لگائیں یا اس سے بھی کچھ زیادہ؟ ہم نے آرمی کو ایس اُو پیز کی پابندی کے لیے بلا لیا، لیکن کیا ایسا کرنا ہی کافی ہو گا؟ یقینا نہیں۔
کرونا کی دوسری لہر کے دوران میں بھی ہم نے بھارت میں وبا کے عروج کے ایک سے دو ماہ بعد پاکستان میں صورتِ حال خراب ہوتی ہوئی دیکھی۔ اب بھی قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے مئی اور جون کے ماہ بہت اہم ہوں گے کہ اس وقت میں ہی ہمیں اپنی سنجیدگی دکھانا ہوگی۔ ورنہ بھارت جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت تمام جائزوں کے مطابق ہم فیصلہ سازی میں بہت پیچھے ہیں۔ ویکسی نیشن کا عمل وہ تیزی نہیں پا سکا جس کی امید کی جا رہی تھی۔ عوام کا عمومی مزاج ہم تبدیل نہیں کر پائے اور ابھی تک ایس اُو پیز کی پابندی کے بنا ہجوم دیکھے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف عید اور چاند رات کے حوالے سے کاروباری طبقہ حکومتی احکامات ماننے کو تیار نظر نہیں آتا۔ آکسیجن کے بحران کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے۔ پاکستان سٹیل مل کے آکسیجن پیداواری یونٹ پہ تمام خبریں ہیں۔ جب کہ متبادل ذرائع پہ کسی قسم کا کوئی کام نظر نہیں آ رہا۔ عام مارکیٹ کا یہ حال ہے کہ دس ہزار والا آکسیجن سلنڈر پہلے ہی بیس ہزار کی حد بھی عبور کرچکا ہے۔ آکسیجن سلنڈر مافیا پوری طرح حرکت میں آ چکا ہے۔ جب کہ آکسیجن گیس کی فراہمی بھی ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکی ہے۔
ہم کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ اس بحران سے کیسے نمٹیں گے؟ اگر صورتِ حال بھارت جیسی ہو گئی تو، اس حوالے سے کسی کو علم نہیں۔
بھارت نے کیا نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے؟ عوام پہ سختی سے ایس اُو پیز کو نافذ کرنا ہو گا۔ ہر ممکن سختی کا ذریعہ اپنانا ہوگا۔ لوگوں میں ویکسی نیشن کا رجحان پیدا کرنا ہوگا کہ وہ ویکسین لگوائیں۔ اس کے علاوہ نادرا سے مدد بھی لی جاسکتی ہے ویکسی نیشن کے حوالے سے کہ عمر رسیدہ افراد کو گھر پہ ویکسین لگ پائے۔ گھر پہ ویکسین لگانے کے لیے بھی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کاروبار بظاہر بند کروا دیے جاتے ہیں، لیکن صرف شٹر ڈاؤن ہوتا ہے۔ کاروبار شٹر کے پیچھے ویسے ہی جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ سخت سزائیں دینا ہوں گی۔
چاند رات پہ پابندی ایک احسن فیصلہ ہے، لیکن مسئلہ اس فیصلے پہ سختی سے پابندی کروانے کا بھی ہوگا۔ لوکل ٹرانسپورٹ میں سواریوں کو جیسے ٹھونسا جاتا ہے، اس پہ بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ ضلعی کچہریاں، ہسپتال، فیکٹریاں، ملیں، نجی کمپنیاں، ہر جگہ پہ احتیاط لازم بنانا ہوگی کہ ہجوم نہ ہو پائے۔ جس میں ابھی تک ہم کامیاب نہیں ہو پائے۔
جس صورتِ حال کا آج بھارت کو سامنا ہے، اس سے بچنے کے لیے پاکستان کو یقینی طور پر ذمہ داری سے عقل و دانش سے کیے گئے فیصلے نافذ کرنا ہوں گے۔ ایک مجموعی کوشش کی ضرورت ہے جو پاکستان کے لیے بہتر ہو گی۔ حکومت ، عوام، کاروباری حضرات سب کو مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور ہمیں مضبوط فیصلے اور بہت سا کام کرنا ہے۔ اگر ہم اس لمحے میں مضبوطی سے کھڑے نہیں ہوں گے، تو ہمارے پاس پچھتانے کے لیے بھی کچھ نہیں بچے گا۔
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔