مسئلہ سنگین تھا کہ بنایا گیا؟

پچھلے کچھ عرصہ سے جب سے فرانس کے صدر نے توہین آمیز خاکے بنانے کی ایک لحاظ سے سرکاری طور تقریب منعقد کی۔ تب سے پاکستان کے حالات سماجی طور پر سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا ایک مظہر تو گذشتہ دنوں لاہور سمیت پنجاب بھر میں نظر آیا۔ تمام صحافی اور سماجی حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ مسئلہ دب گیا ہے ختم نہیں ہوا۔ عن قریب یہ مکمل شدت سے دوبارہ سر اٹھائے گا۔ تب شاید یہ کسی کہ کنٹرول میں نہ رہے۔
عمومی تاثر یہی ہے کہ اس معاملہ کو اس نج پر لانے میں اول کردار خصوصاً وزیراعظم کا بذاتِ خود ہے۔ یہ حکومت کی نااہلی اور خود پسندی ہے جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی۔ کیوں کہ حکومت بروقت کچھ نہ کرسکی۔ مَیں حیران ہوں کہ اس حکومت میں شاہ محمود، شفقت محمود، پرویز خٹک، فواد چوہدری وغیرہ جیسے بہت سیزن اور سینئر سیاسی قائدین ہیں، کیا انہوں نے بھی کوئی مشورہ نہیں دیا؟ حالاں کہ ماضی میں یہ معاملات کئی بار ہو چکے ہیں۔
اول ماضیِ قریب میں مسئلہ ختم نبوتؐ ابھرا، تو ذوالفقار علی بھٹو نے بہت دانش سے تمام سیاسی جماعتوں سمیت علما و اعلا حلقوں کو براہِ راست اعتماد میں لیا۔ طریقۂ کار طے کیا اور اسمبلی لے آئے۔ یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ بالکل بے ضرر طریقہ سے حل کر دیا۔
پھر دوسرا واقعہ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں سلمان رشدی معلون والا پیش آیا۔ تب بھی حکومت نے دانش مندی سے تمام جماعتوں کی کمیٹی بنا کر حل کیا۔ گو کہ شروع میں کچھ مسائل ہوئے۔ پھر مشرف دور میں ڈنمارک والا واقعہ ہوا، جس کو ایک ایک آمر نے کلی طور علما کے ہاتھ دے کر حل کیا۔ پھر پی پی دور میں جب زرداری صدر اور پرویز اشرف وزیراعظم تھے، دوبارہ ڈنمارک واقعہ ہوا، تو حکومت نے اے پی سی بھلا کر عشرۂ رحمت العالمینؐ منانے کا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد جب میاں محمد نواز شریف کے دور میں ختمِ رسالتؐ کا مسئلہ اٹھا، تو اس کے باجود بھی کہ اسٹیبلشمنٹ کا واضح پیغام دوسری طرف تھا۔ اس وقت کی اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی بہت کھل کر لبیک کے ساتھ تھی، لیکن پھر بھی نواز حکومت نے بہت مناسب حکمت عملی سے اس کو حل کیا۔
بہرحال جب ان معاملات میں قوم کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور مشترکہ ایشو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو ذمہ داری اجتماعی ہو جاتی ہے۔ جب تمام قوم کی آواز حقائق پر مبنی ہو، تو دوسری طرف کے پریشر گروپس ہوں یا جتھے، وہ بہرحال حقائق کو سمجھ جاتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ بہت ہی عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا عمران خان کی حکومت نے۔ یہ بات تو اس عالم کیا بلکہ تمام عالمین کو معلوم ہے کہ حرمتِ رسولؐ کے مسئلے پر ایک عمومی مسلمان خواہ وہ ریجڈ ملا ہو، رجعت پسند سوچ کا حامل ہو، روادار حلقے ہوں یا پھر لبرل اور مغرب پرست لوگ، سب ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ شاید عطیۂ خداوندی ہے کہ چاہے کوئی بھی مسلمان ہو، وہ اپنی عزت، دولت حتی کہ عقائد، مذہب، مذہبی شعار تک پر کمپرویز کرلیتا ہے لیکن وہ حرمتِ رسولؐ پر کوئی حرف ایک لمحہ، ایک انچ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اس میں کسی طبقہ، کسی شعبہ، کسی مسلک کو کوئی استثنا نہیں۔ سو کاش، موجودہ مسئلہ کو اس تناظر میں دیکھا جاتا۔
یہ حقیقت ہے کہ اس دفعہ خاکوں کا مسئلہ کسی فرد کی نجی حرکت نہ تھی، نہ کسی تنظیم یا گروہ کی طرف سے حرکت ہوئی بلکہ اس دفعہ یہ حرکت فرانس جیسے ترقی یافتہ اور مہذب ملک کے صدر کی جانب سے براہِ راست کی گئی۔ سو اس پر عالمِ اسلام کی طرف سے ری ایکشن آنا بہت فطری اور متوقع تھا۔ خاص کر پاکستان میں عوام کا مشتعل ہونا بہت عمومی بات تھی، لیکن حکومت نے اس کو بہت ہی احمقانہ طریقہ سے حل کیا۔ ہمارے عظیم وزیر اعظم جن کو یہ وہم ہے کہ وہ مغرب کو بہت بہتر جانتے ہیں، کاش! وہ اپنے ملک و قوم کو بہتر جاننے کی بھی کوشش کرتے۔ سو اس مسئلہ پر کم از کم ذاتی انا کو پسِ پشت ڈالتے ۔
اب جناب وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ تحریک لبیک کا مقصد صحیح ہے لیکن طریقہ کار غلط ہے۔ جب کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا لبیک کو روکنے کا فیصلہ بالکل صحیح ہے لیکن طریقۂ کار غلط ہے۔
منطق اور اصول کا تقاضا یہ تھا کہ جب یہ مکروہ حرکت کی گئی، تو پاکستان حکومت فوراً اپنا سفیر واپس بلا لیتی اور ساتھ ہی کل جماعتی کانفرنس طلب کرتی۔ پھر تمام جماعتوں کی رائے سے جو فیصلہ ہوتا اس کو پارلیمنٹ لے جاتی۔ اب جب تمام جماعتیں اکٹھی بیٹھ جاتیں، تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ فرانس کے سفیر کو واپس کرنے کا فیصلہ کرتی؟ جب تمام جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ اور وزراتِ خارجہ کے اعلا افسران سے بریفنگ لیتی، تو یقینا ان کو سمجھ آجاتی کہ یہ فیصلہ عملاً ممکن نہیں۔ تب میرا نہیں خیال تحریکِ لبیک اتنی جماعتوں، علما، اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیبلشمنٹ اور خارجہ امور کے ماہرین کی رائے کے مخالف چل پاتی۔ اگر چلنے کی کوشش کرتی، تو سو فی صد ناکام ہو جاتی، لیکن حکومت نے انتہائی بے وقوفانہ انداز میں کسی کو آن بورڈ نہیں لیا۔ پارلیمنٹ کو ہوا نہ لگنے دی۔ حتی کہ کابینہ بھی اس سے لاعلم رہی۔ اتحادی غیر متعلق رہے، تو دوسری حزبِ اختلاف کی جماعتوں کہ جن کو وزیراعظم صاحب خواب میں بھی گالیاں دیتے رہتے ہیں، کو اعتماد میں لینے کا کیا سوال تھا۔ سو حکومت بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وزیرِاعظم اور ان کے قریب ترین چند مشیران نے اپنی طرف سے بہت چالاکی کی کوشش کی اور لبیک کے ساتھ فوراً ایک ایسا معاہدہ کر لیا کہ جو کرتے وقت بھی ان کو پتا تھا کہ یہ عملی ممکن نہیں۔
اس کے بعد حکومت ٹھنڈا پانی پی کر سوگئی۔ اس کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ معاملہ ختم ہو جائے گا اور ہم معاہدہ کے خاتمہ کے قریب لبیک کی اعلا قیادت کو بند کر دیں گے۔ یوں مسئلہ ختم ہو جائے گا، لیکن ان دانشوروں کو یہ اندازہ نہ تھا کہ معاملہ کی نزاکت کتنی ہے؟ یہ ناموسِ رسالتؐ کا معاملہ تو ساڑھے چودہ سو سال سے کبھی ایک دن واسطے بھی کمپرومائزڈ نہ ہوا، تو اتنی جلدی یہ ارسطو بِنا کسی کو مطمئن کیے کیسے حل کر لیں گے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت ماضی کی طرح اس معاملہ پر فوری طور کل جماعتی کانفرنس منعقد کرتی اور پھر اس کے تناظر میں معاملہ اسمبلی لے جاتی، لیکن اربابِ حکومت کے ذمہ داران نے حسبِ روایت، حسبِ عادت سب کچھ بالکل انتہائی غلط طریقہ سے کیا اور حالات کو شدید خراب کر دیا۔ اب جب ہم بند گلی میں آگئے ہیں، تو تب بھی نہ کوئی پالیسی بیان ہے نہ حکمت عملی، نہ وزیرِاعظم اسمبلی میں آتے ہیں اور نہ وزیر داخلہ کے پاس کچھ بتانے کو ہے۔ پورا ملک کنفیوژن کا شکار ہے۔ یہ احساس پروان چڑھ رہا ہے کہ معاملہ سنگین اتنا نہ تھا، جتنا اس کو بنایا گیا۔
سو حکومت خدا کا خوف کرے، اس معاملہ پر انا کو ایک طرف رکھ تمام پارلیمانی طاقتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک فارمولا بنائے اور محترم سعد رضوی کو فوری رہا کر کے ان کو اعتماد لیں۔ نہیں تو ہر چیز آپ کے ہاتھ سے مکمل نکل جائے گی۔
ویسے آج کل کچھ خبریں بھی اسلام آباد اور پنڈی میں گرم ہیں۔ وہ یہ کہ اصل حاکم یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ اگر بے تحاشا دھاندلی بھی ہو، تب بھی پی ٹی آئی کا جیتنا ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کا غیر مقبول ہونا ان واسطے ’’واک اوور‘‘ ہے، سو اس کو روکنے واسطے کیا حل ہو سکتا ہے؟ یہ موجودہ صورتِ حال وہی ممکنہ حل ہے۔ سعد رضوی کو لیڈر بنا کر پنجاب میں پیش کرو اور اگر ہر حلقہ سے لبیک نے بیس پچیس ہزار ووٹ لے لیے تو نتیجہ تقریباً دو ہزار آٹھ والا ہوگا۔ پھر اس ہینگ اسمبلی سے زرداری بارگینگ کرلے یا جہانگیر ترین۔ حتی کہ شہباز شریف ہی کرلے لیکن طاقت کا توازن تو شارع دستور نہیں، بلکہ مال روڈ صدر پنڈی ہی رہے گا۔
اگر یہ واقعی اصل کھیل ہے، تو پھر قوم کو اجتماعی طور پر ’’اناﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لینا چاہیے۔ کیوں کہ پھر یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہم آج بھی سالوں قبل کے نظام کہ جس نے ہمیں تباہ و برباد کر دیا میں ہیں اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی باتیں سب فضول ہیں۔ ہم کو ابھی سالوں مزیدجدوجہد کرنا ہوگی، لیکن ایک بات کا مجھے ایک گنہگار مسلمان کی حیثیت سے دکھ ضرور ہے کہ ہم کچھ گھٹیا سیاسی سفارتی فوائد واسطے مقدس ترین ہستیوں کے نام حتی کہ حرمتِ رحمت العالمینؐ کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔