سینٹ اور اَپ سیٹ

سینٹ الیکشن 3 مارچ میں اسلام آباد سے واحد نشست کے لیے حزبِ اقتدار کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ اور پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی میں ون ٹو ون مقابلہ تھا۔ قومی اسمبلی میں حکومتی امیدوار کو عددی برتری حاصل تھی اور حزبِ اقتدار کو پورا یقین تھا کہ عبدالحفیظ شیخ جیت جائیں گے، لیکن جب نتیجہ سامنے آیا، تو عبدالحفیظ شیخ پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی سے ہار گئے۔ عبدالحفیظ شیخ بعض ارکانِ اسمبلی کے غلط ووٹ پول کرنے کی وجہ سے ہار گئے، جس کو لوگ بڑا ’’اَپ سیٹ‘‘ سمجھنے کے ساتھ جمہوریت کے لیے ’’نیک شگون‘‘ نہیں سمجھتے۔ حزبِ اقتدار ہار پر سیخ پا اور حزبِ اختلاف اسے ضمیر کی آواز سے تعبیر کرتے رہے۔
قارئین، پاکستانی سیاست میں ’’اَپ سیٹ‘‘ کا یہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ 12 مارچ بروزِ جمعہ سینٹ کے خصوصی اجلاس میں پریزایڈنگ آفیسر مظفر حسین شاہ نے جب نو منتخب سینٹرز سے حلف لینا چاہا، تو حزبِ اختلاف کے ارکانِ سینٹ نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے نصف کیے گئے ہیں جس پر پریزائڈنگ آفیسر نے سیکرٹری سینٹ کو پولنگ بوتھ دوسری جگہ منتقل کرنے اور فریقین کو مطمئن کرنے کا حکم دیا۔ دونوں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے سنیٹرز کے مطمئن ہونے کے بعد پریزائڈنگ آفیسر نے نو منتخب اڑتالیس اراکین سے حلف لیا۔ حلف اُٹھانے کے بعد سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کے لیے کاغذاتِ نامزد گی جمع کیے گئے۔
یوں چیئرمین کے انتخاب کے لیے تین بجے سہ پہر کا وقت مقرر کیا گیا، تاکہ ارکانِ سینٹ نمازِ جمعہ ادا کرسکیں۔ تین بجے جب سینٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا، تو پریزائڈنگ آفیسر نے سینٹرز کو ووٹ پول کرنے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر کسی معزز رکن سے نشان لگانے میں غلطی ہوجائے، تو ووٹ بکس میں ڈالنے (پول کرنے) کے بجائے سیکرٹری سے دوسرا بیلٹ پیپر مانگ لے۔ اُسے مل جائے گا۔ مگر ووٹ پول کرنے کے بعد کسی کو دوسرا بیلٹ پیپر نہیں ملے گا۔
پولنگ کا عمل شام پانچ بجے تک جاری رہا۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد پریزایڈنگ آفیسر نے ایک ووٹ جس پر دونوں امیدوار کے سامنے مہر لگی ہوئی تھی کے علاوہ سید یوسف رضا گیلانی کے نام پر لگی مہر والے سات ووٹ مسترد کر دیے۔ سید یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہونے کے بعد گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ اے نائیک نے اعتراض اُٹھا کر رول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ پر مہر سید یوسف رضا گیلانی کے خانے میں لگی ہے خانے سے باہر نہیں، جسے مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سنجرانی کے پولنگ ایجنٹ محسن عزیز نے اعتراض کا رول آف بزنس کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ رول میں یہ واضح ہے کہ ووٹ پر مہر امیدوار کے سامنے والے خانے میں لگنا لازمی ہے، نہ کہ مہر امیدوار کے نام پر لگائی جائے۔ اس لیے یہ ووٹ مسترد کیے جائیں۔
فاروق ایچ اے نائیک کے بار بار اعتراض کے باوجود پریزائڈنگ آفیسر نے نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی امیدوار صادق سنجرانی نے اڑتالیس اور سید یوسف رضا گیلانی نے بیالیس ووٹ حاصل کیے ہیں اور اسی طرح صادق سنجرانی چھے ووٹوں سے جیت چکے ہیں۔
سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے حزبِ اقتدار کے مرزا محمد آفریدی اور پی ڈی ایم کے مولانا عبدالغفور حیدری کے درمیان مقابلہ ہوا۔ نتیجتاً حزبِ اختلاف کے عبدالغفور حیدری نے بیالیس ووٹ حاصل کیے جب کہ حزبِ اقتدار کے مرزا محمد آفریدی نے 54 حاصل کیے اور کامیاب قرار پائے۔ ان کا کوئی بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔
قارئین، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ چیئرمین کے چناؤ میں جو آٹھ ووٹ مسترد ہوئے، وہی آٹھ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی کے حق میں درست طریقے سے پول ہوئے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے مخلص نہیں جس کو جہاں بھی موقعہ ملا، اپنا کام نکالتا رہا۔
اس سے پہلے سینٹ کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی نے پاکستان مسلم لیگ نون سے دھوکا کیا جب کہ سینٹ کے اس لیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نون نے پاکستان پیپلز پارٹی کو چکمہ دیتے ہوئے سید یوسف رضا گیلانی کو ناکامی سے دوچار کیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولانا نے پیپلز پارٹی کو اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو سبق سکھانے کے لیے ایسا کیا ہو۔
بہرحال جو کچھ بھی ہو، سینٹ میں حکومتی ارکان کی تعداد کم ہونے کے باوجود اُن کی جیت حیران کن ’’اَپ سیٹ‘‘ ضرور ہے۔
اب حزبِ اختلاف (پی ڈی ایم) نے ایک بار پھر حکومت پر اُن کا مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پیپلز پارٹی نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے انہیں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینٹ الیکشن، اس کے نتائج اور اس کو چیلنج کرنے کے بارے میں تجزیہ نگار اور قانون دان مختلف رائے پیش کر رہے ہیں۔ سب کے سب آئین اور قانون کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے نے تین مارچ کو ہونے والے سینٹ الیکشن کے دوران میں ( ووٹ کو خراب کرنے بارے) جو بیج بویا تھا، اسی کی فصل اس کے باپ سید یوسف رضا گیلانی کو کاٹنا پڑی۔
کوہے مہ کنہ د بل سڑی پہ لار کی
چرے ستا بہ د کوہی پہ غاڑہ لار شی
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔