ملتان پنجاب کا دوسرا بڑا شہر، جنوبی پنجاب کا مرکز اور اہم ترین کاروباری ’’حب‘‘ ہے، جہاں نہ صرف پورے جنوبی پنجاب بلکہ اندرونِ سندھ اور بلوچستان سے بھی لوگ تجارت، دفتری امور، صحت، تعلیم اور روزگار کے لیے آتے ہیں۔ اب سی پیک اکنامک کوریڈور کی وجہ سے جغرافیائی طور پر ملتان انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ جنوبی پنجاب کا مرکزی اور پاکستان کا وسطی شہر ہونے کی وجہ سے مستقبل میں ملک بھر کی کاروباری سرگرمیوں کا محور بننے جا رہا ہے، لیکن قدیمی شہر ہونے کی وجہ سے ملتان کے تنگ بازار، بے ہنگم ٹریفک اور ناجائز تجاوزات کی بھر مار اہم مسائل ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کئی بار شہر کے مختلف علاقوں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کرچکی۔ حسین آگاہی بازار، گھنٹا گھر، حرم گیٹ اور شہر کے گنجان آباد علاقوں میں وقتی طور پر ناجائز تجاوزات ختم اور ناجائز تعمیرات مسمار کی گئیں۔ فٹ پاتھ واگزار کروالیے گئے، جس سے شہر کے گنجان آباد علاقے ایک نئی تصویر پیش کرنے لگے، مگر ان کارروائیوں کے بعد ناجائز تجاوزات قائم کرنے والوں کے خلاف ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی، جس کی وجہ سے کہیں سیاسی اثر و رسوخ تو کہیں عملے کی ملی بھگت سے ناجائز تجاوزات پھر سے قائم ہو جاتے ہیں۔ تجاوزات کی وجہ سے بعض اوقات تو اس قدر ٹریفک جام ہوتی ہے کہ ایمبولینس اور دیگر ایمرجنسی گاڑیاں بھی گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں۔ اہم سیاست دانوں کا تعلق سر زمینِ ملتان سے ہے، مگر اس کے باوجود یہ ترقی کے دوڑ میں یہ پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی ترقی کی راہ میں خراب سڑکیں، ناقص سیوریج سسٹم، کمزور انفراسٹرکچروغیرہ حائل ہیں۔
ملتانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے دورِ حکومت میں ملتان میں بیشتر نئے روڈ بنوائے اور شہر میں بڑھتی ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے شان دار فلائی اوورز بنوائے، جن کی وجہ سے شہر کے بیرونی علاقوں میں ٹریفک کے مسائل کسی حد تک حل ہوئے۔
آج شہری ٹریفک کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح محکمہ ایم ڈی اے شہریوں کی رہائشی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کالونیاں بناتا ہے، اسی طرح کاروباری ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے تجارتی مرکز(ملتان میگا ٹریڈ زون) کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔
ٹریفک مسائل کے پیشِ نظر ضلعی انتظامیہ ملتان کی بڑی منڈیاں مثلاً لوہا مارکیٹ، غلہ منڈی، ٹمبر مارکیٹ کو شہر سے باہر منتقل کرنا چاہتی ہے، مگر ان منڈیوں کے تاجر اور جائیدادوں کے مالکان یہاں سے شفٹنگ کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ملتان کے کسی بھی ’’موٹر وے انٹر چینج‘‘ کے قریب وسیع و عریض رقبے پر ایک ایسا نیا تجارتی مرکز قائم کیا جائے جس میں نئی غلہ منڈی، نئی لوہا مارکیٹ، ٹمبر مارکیٹ، پرنٹنگ مارکیٹ، الیکٹرونکس مارکیٹ، ہول سیل کلاتھ مارکیٹ، ہارڈ ویئر و زرعی آلات کی مارکیٹ، ہول سیل میڈیسن مارکیٹ سمیت وسیع جگہ مختلف نوعیت کے کاروبار کے لیے موجود ہو جو کہ دورِ جدید کی تمام سہولیات سے بھی آراستہ ہو، جس میں تاجروں اور دور دراز سے آئے ہوئے خریداروں کے لیے تمام سہولیات مثلاً بنک اور فوڈ سٹریٹ موجود ہو۔ اس اقدام سے جہاں شہر بھر سے ٹریفک کے مسائل حل ہوں گے، وہاں عالمی معیار کی نئے تجارتی مرکز کے قیام سے ملتان تجارتی حب بنے گا، اور یہ خطہ ترقی کی راہ پر گام زن ہوگا۔
ملتان شہر قدیم عہد میں بھی اپنے جغرافیائی محل وقوع کی نسبت سے تجارت کا اہم ترین مرکز تھا۔ ملتان نیل کی پیداوار کا قدیم ترین علاقہ تھا، جہاں اعلا درجے کا نیل پیدا ہوتا تھا اور تجارتی قافلے دنیا کے مختلف خطوں میں ملتان سے نیل لے جایا کرتے تھے۔ قدیم زمانے میں دریائے راوی ملتان کے قدیم قلعے کے ساتھ بہتا تھا اور اسے بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ کشتیوں کے ذریعے صرف سکھر بھکر ہی نہیں منصورہ، عراق، ایران، مصر، کا بل، دلی اور دکن تک کی تجارت ہوتی تھی۔ اس طرح ملتان کو دنیا کے بڑے علمی تجارتی اور مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ اس ذریعے سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کا نام اور پیغام پہنچا۔ آپؒ کے پوتے غوث العالمین حضرت شیخ شاہ رکن عالمؒ تجارت کی غرض سے قافلوں کو سرزمینِ ملتان سے روانہ کرتے وقت نصیحت فرماتے، رزق حلال کے حصول کے لیے تجارت کرنی ہے اور خدا کی خوشنودی کے لیے تبلیغ بھی۔ وفود کو روانگی سے پہلے پانچ باتوں کی نصیحت بھی فرماتے:
٭ تجارت میں اسلام کے زریں اصولوں کو فراموش نہ کرنا۔
٭ چیزوں کو کم منافع پر فروخت کرنا۔
٭ خراب چیزیں ہرگز فروخت نہ کرنا بلکہ انہیں تلف کر دینا۔
٭ خریدار سے انتہائی شرافت اور اخلاق سے پیش آنا۔
٭ جب تک لوگ آپ کے قول و کردار کے گرویدہ نہ ہو جائیں ان پر اسلام پیش نہ کرنا۔
ملتان شہر نے جہاں مثالی تجارت کو فروغ دیا وہاں بہت سے دستکار بھی پیدا کیے۔ حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ اپنے خرچ پر طالب علموں اور مریدوں کو دنیا کے مختلف خطوں میں کارآمد ہنر سیکھنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ یوں ملتان میں ہنرمندوں کے بہت سے محلے آباد ہوگئے جن میں کنگھی محلہ، درکھانہ محلہ، والوٹ، سوتری وٹ، ٹھٹھہ پاؤلیاں اور بستی چم رنگ شامل ہیں۔ آج بھی اس علاقہ سے آم، دھاگا، کپاس، ملبوسات، چمڑے کا سامان، جوتے اوردستکاری کا سامان برآمد ہو رہا ہے جس میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے، اس کے لیے ملتان ڈرائی پورٹ کی اَپ گریڈیشن ضروری ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے جنوبی پنجاب اور ملتا ن شہر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ملتان سرمایہ کاری کے لیے نہا یت پُرکشش علاقہ ہے کیوں کہ یہاں ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلہ میں سستی لیبر دستیاب ہے۔ لہٰذا حکو مت کو یہاں پر انفرا سٹرکچر کے ساتھ ساتھ اقتصادی و تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔