کچھ تاریخی "مچھ جیل” کے بارے میں

’’سلیمان لائق سیمینار، کوئٹہ‘‘ میں شرکت کے لیے سوات سے راقم، ڈاکٹر محمد علی دینا خیل اور ملاکنڈ یونیورسٹی کے ایم فل پشتو کے سکالر نجیب اللہ، دیر سے ملاکنڈ یونیورسٹی کے ایم فل پشتو کے سکالرز سعید ساحل، عامر مشعل اورلیکچرار پاکستان سٹڈی پشاور یونیورسٹی طارق امین جب کہ مردان سے عبدالولی خان یونیورسٹی کے پشتو ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بخشالی اور ملاکنڈ یونیورسٹی کے پشتو ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر نور البصر امن صاحب پر مشتمل یہ قافلہ 30 دسمبر 2020ء کو پشاور سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوا۔ سیمینار 2 جنوری 2021ء کو کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہو نے والا تھا۔ سیمینار سے پہلے اور بعد کے دنوں میں ہمیں ڈاکٹر صادق ژڑک کی سر براہی میں کوئٹہ شہر کے ساتھ ساتھ دیگر سیاحتی مقامات کا دورہ کرنا پڑا۔ ان مقامات میں مچھ اور کوئلے کی کانوں کی سیر بھی کرنا تھی۔ مچھ میں پاکستان کے مشہور ’مچھ جیل‘‘کا دورہ بھی نصیب ہوا۔
یوں ہمیں 4 جنوری 2021ء کو مچھ جیل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔’’مچھ ‘‘بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کے ہیں۔ مچھ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جوپہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ اس قصبہ کے ارد گرد کوئلے کی کانیں ہیں۔ مچھ کا بازارچھوٹا اور نہایت ہی سادہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور کھانے کے لیے بازار آئے تھے، جن کی حالت دیکھ کر ہماری اپنی حالت خراب ہوئی ۔
مچھ جیل 1928ء میں بنی۔ یہ کوئٹہ کی تحصیل ’’مچھ‘‘ ضلع بولان میں کوئٹہ شہر سے تقریباً 52کلومیٹر کے فاصلے پر سبی روڈ پر واقع ہے۔یہ جیل 1106ایکڑ رقبہ پر بنی ہے۔ اس جیل میں دس بارک ہیں۔ ہر بارک میں 40 قیدیوں کے لیے جگہ مخصوص ہے۔ ہر بارک کے ساتھ چار ملحقہ واش روم اور باہر کھلی جگہ بھی ہے۔ صبح 9 بجے قیدیوں کو بارک سے نکالا جا تا ہے۔یہ عصر کی نماز تک اس کھلی جگہ میں بیٹھتے ہیں۔ مختلف قسم کے کھیل مثلاً کرکٹ، والی بال اور فٹ بال وغیرہ کھیلتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی قیدی انگوٹھیاں، چوڑیاں اور ہار بنانے میں مصروف ہو تے ہیں۔ یہ ہار، انگوٹھیاں اور چوڑیاں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔ جیل کی سب سے بیرونی دیوار بم پروف ہے۔ اس کے بعد اندر والی دیوار بھی پختہ تعمیر کی گئی ہے جس پر بجلی کا تار بھی بچھا یا گیا ہے۔بجلی کے تار کے ساتھ اگر انسانی وجود کا کوئی بھی حصہ مس ہوجائے، تو کرنٹ کے ساتھ ساتھ الارم بھی بجتا ہے جس سے جیل کے عملے کو کسی قیدی کے بھاگنے یا کسی اور ایمر جنسی کا پتا چلتا ہے۔
جیل کے اندر کی دنیا الگ ہے۔ مثلاً ہم نے دیکھا کہ وہاں میکینک دکان بھی ہے جس میں باقاعدہ طور پر قیدیوں کو انجینئرنگ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح رنگ سازی کے لیے الگ جگہ متعین ہے جہاں قیدی رنگ سازی سیکھتے ہیں۔ چمڑے کی جوتی اور چپل بنانے کے لیے بھی ایک بارک مختص ہے جہاں قیدی وافر مقدار میں علاقائی چپل تیار کرتے ہیں۔ جیل میں قیدیوں کو لکڑی سے مختلف قسم کا سامان تیار کرنے کے گر بھی سکھا ئے جاتے ہیں۔ یہاں روٹی تیار کرنے والی مشین قابلِ دید ہے۔ ایک بڑے گول پہیے کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور پہیہ بجلی کے ذریعے گھومنے لگتا ہے۔ ا س پہیے پرروٹی ڈالی جاتی ہے۔ یہ چکر کاٹتا ہے اور یوں روٹی پک کر تیار ہوجاتی ہے۔ ہمیں بھی وہ روٹی کھلائی گئی جو واقعی بڑی لذیذ تھی۔ جیل کا کچن صاف ستھرا اور جدید آلات پر مشتمل ہے۔ یہاں کام کرنے والے قیدی دوسرے قیدیوں سے صفائی میں بالکل مختلف دکھائی دیے۔ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ گل محمد کا کہنا تھا کہ یہاں کی صفائی کا معیار تمام جیل کی صفائی سے بہتر ہے۔
جیل کے اندر کینٹین بھی ہے جس میں قیدیوں کو ضروریاتِ زندگی میسر ہوتی ہیں۔ یہاں ایک بڑی لائبریری بھی ہے۔ یہ لائبریری تقریباً 700 کتابوں پر مشتمل ہے جس میں اسلامی، طنز و مزاح اور سائنسی موضوعات پر مبنی کتابوں کے علاوہ دیگر کئی اہم موضوعات پر کتب موجود ہیں ۔
اب آتے ہیں جیل کے اس مقام کی طرف جہاں انسان سوچنے پر مجبور ہو جا تا ہے۔ اس جگہ کو پھانسی گھاٹ کہتے ہیں۔ ہمیں ڈپٹی سپرٹنڈنٹ گل محمد اور محمد یوسف سپاہی یہ جگہ دکھانے لے گئے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کراچی کے صولت مرزا کو پھانسی دی گئی۔ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ گل محمد نے کہا کہ پھانسی دیتے وقت ملزم سے اس کی کوئی آخری خواہش نہیں پوچھی جاتی، یہ سب فلمی باتیں ہیں ۔ پھانسی ہونے والے شخص کے لیے ہاتھ پاؤں باندھنے کا کپڑا، دستانے، جرابیں، چہرے کو ڈھانپنے والا کپڑااور گلے میں ڈالی جانے والی رسّی ہوتی ہے جسے ’’پھانسی کٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اسے پھانسی ہو نے والے کو پہنا کر پھانسی دی جاتی ہے۔ پھانسی دیتے وقت پھانسی ہونے والے کا بھائی، باپ یا دیگر رشتہ دار وغیرہ کو یہاں موجود ہو نے کی اجازت نہیں ہوتی۔ البتہ مدعی اگر چاہے کہ ملزم کو اس کے سامنے پھانسی دی جائے، تو اسے وہاں آنے کی اجازت ملتی ہے۔ مدعی کی موجودگی میں ایک حکمت یہ بھی ہو تی ہے کہ ہو سکتا ہے اس مقام پر وہ اپنے دشمن کو معاف کردے۔ محمد یوسف کے کہنے کے مطابق بہت سارے ملزموں کو پھانسی کرتے وقت معاف بھی کیا گیا ہے۔ مچھ جیل وہ تاریخی جیل ہے جس میں بہت سے سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا ہے جن میں نواب اکبر بگٹی، سردارعطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری جیسی شخصیات کو قید رکھا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کئی اہم شخصیات کو پھانسی بھی ہو ئی۔ ایک سوال کے جواب میں ہمیں یہ بھی بتا یا گیا کہ جیسے کہ عام تاثر ہے کہ جیل میں قیدیوں کا ایک دن اور ایک رات یعنی چوبیس گھنٹے اس کی سزا کے دو دن شمار ہوتے ہیں ، بالکل غلط ہے۔ یہاں رات کو دن کا مد مقابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تصور بالکل غلط ہے۔
نیز قیدی کو صبح سورج نکلنے سے پہلے پھانسی کے بارے میں جو روایات مشہور ہیں وہ بھی بے بنیاد ہیں۔
المختصر، جیل کے عملہ نے ہمیں جیل کے تمام حصے دکھائے۔ ہمیں پُرتکلف چائے بھی پلائی گئی اور آخر میں جیل کے مین گیٹ کے سامنے سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ہمارے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں جس کے لیے ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے کوئٹہ کی طرف واپس ہوئے۔
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔