ہم کب اس معیار تک پہنچیں گے؟

برطانوی حکومت نے 1997ء میں ’’ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں تعلیم، صحت، سوشل سروسز، صاف پانی کی فراہمی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی دستیابی کے لیے مالی مدد کرنا تھا۔ یہ ادارہ ان مقاصد کے لیے سالانہ 1 3بلین پاؤنڈز کی خطیر رقم مختلف پس ماندہ ممالک کو دیتا رہا لیکن اس کے باوجود مالی مدد حاصل کرنے والے کسی بھی ترقی پذیر ملک میں تعلیم، صحت اور سوشل سروسز کے شعبے میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ آخرِکار ستمبر 2020ء میں ادارہ کی بساط لپیٹ دی گئی۔
برطانیہ کے علاوہ جرمنی، فرانس اور یورپ کے کئی اور خوشحال ممالک، ترقی پذیر ملکوں میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی بہتری کے علاوہ غربت اور پس ماندگی کے خاتمہ کے لیے مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ حکومتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ این جی اُوز کے فلاحی پراجیکٹوں کے لیے بھی خطیر رقم دیتے ہیں لیکن جن مقاصد کے لیے بھاری رقم امداد کے طور پر دی جاتی ہے، وہ مقاصد کم ہی پورے ہوتے ہیں۔
ایک بار کسی افریقی ملک سے ایک وزیر کسی یورپی ملک سے اسی نوعیت کی امدادی رقم کے حصول کے سلسلے میں اپنے ذاتی طیارے میں تشریف لائے، تو مالی امداد دینے والے محکمے کے سربراہ نے اس وزیر موصوف سے کہا کہ آپ جس اہتمام سے میرے ملک میں تشریف لائے ہیں، اس سے یوں لگتا ہے جیسے آپ امداد لینے نہیں بلکہ ہمیں امداد دینے آئے ہیں۔ اسی طرح کسی خوشحال یورپی ملک کا کوئی وفد جب کسی پس ماندہ ملک میں کسی فلاحی مقصد کے لیے مالی مدد کی فراہمی سے پہلے وہاں حالات کا جائزہ لینے کے لیے جاتا ہے، تو حکومتی اربابِ اختیار اور وزیروں کے ٹھاٹھ باٹھ اور پروٹوکول دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔
ایک بار لندن کے ایک مضافاتی شہر کے ایک پاکستانی مئیر برطانوی پارلیمنٹ کے کچھ اراکین کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے دورے پر لے گئے۔ وہاں ان کا جس طرح شاہانہ استقبال ہوا، اسلام آباد اور مظفر آباد میں اُن کے لیے جس پروٹوکول کا اہتمام کیا گیا، وہ اُن کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔ پاکستان اور کشمیر میں ڈیڑھ ہفتے تک جس طرح ان کی خاطر مدارت کی گئی اس کے بعد لندن آنے پر کئی ہفتے تک اُن کا دل برطانوی سیاست سے اُچاٹ ہوگیا۔
برطانیہ میں سیاست ایک محنت طلب پیشہ اور ذمہ داری ہے۔ کونسلر سے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن تک ہر سیاست دان کو اپنے حلقے کے مسائل اور معاملات سے باخبر رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ کے سیاست دانوں کی اکثریت سادہ زندگی گزارتی اور سیاست کو عوامی خدمت کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو تقریباً 82 ہزار پونڈز سالانہ تنخواہ اور کچھ الاؤنس ملتے ہیں۔ ایک رکنِ پارلیمنٹ کو جتنا کام کرنا پڑتا ہے، اس کے مقابلے میں یہ تنخواہ زیادہ نہیں۔ اگر پارلیمنٹ کا کوئی رکن اپنے مختص لاؤنس سے زیادہ رقم استعمال کرے، تو اسے جواب دہ ہونا پڑتا ہے ۔ یہاں کے سیاست دانوں کے پاس اتنے وسائل اور وقت نہیں ہوتا کہ وہ کوئی کاروبار کریں یا اپنی اولاد کے لیے شوگر مل یا فیکٹری لگوائیں۔ برطانوی ہاؤس آف کامنز (پارلیمنٹ) کے رکن اور وزیر نہ تو کسی قسم کے پروٹوکول کے عادی ہوتے ہیں اور نہ انہیں پروٹوکول کے نام پر کسی قسم کی اضافی مراعات ہی فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ سیاست دان پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو سائیکل سواری سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بورس جانسن جب لندن کے مئیر تھے، تو برطانوی دارالحکومت میں سائیکل پر گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ مَیں گذشتہ 26 برس سے لندن میں مقیم ہوں۔ اس عرصے میں آج تک میں نے لندن کی کوئی سڑک یا شاہراہ اس لیے بند نہیں دیکھی کہ یہاں سے ملکۂ برطانیہ یا اس ملک کے وزیراعظم کا قافلہ گزر رہا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان جب برطانیہ آتے ہیں، تو عام لوگوں کی طرح بغیر کسی پرٹوکول کے آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ سیاست دان اور خاص طور پر وزرائے اعلا اور وزیر یا سابق وزیراعظم واپس پاکستان پہنچتے ہیں، تو پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر وہ اہتمام کیا جاتا ہے جس کا یورپ میں تصور بھی ممکن نہیں۔ بلٹ پروف گاڑیاں، پولیس اور سکیورٹی اہل کاروں کا قافلہ، سڑکوں اور شاہراہوں کی بندش، ایسا لگتا ہے کہ کسی شہنشاہ کی سواری جا رہی ہے۔ سکیورٹی کے ایسے انتظامات دیکھ کر ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ پاکستان کے حالات کو اس نہج تک کس نے پہنچایا اور اس ملک کو اتنا غیر محفوظ کس نے بنایا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بلٹ پروف گاڑیوں اور سکیورٹی اہل کاروں کے قافلے سمیت سفر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے؟
جس ملک کے حکمران تمام تر اختیارات کے باوجود خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوں، وہاں بے چارے عوام کا پرسانِ حال کون ہوگا؟ مَیں پہلے بھی کئی بار اس بات کی نشان دہی کرچکا ہوں کہ جب تک پاکستان میں اسلحے کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی نہیں اپنائی جائے گی، اس وقت تک پاکستان میں ڈکیتی، قتل و غارت گری، اِغوا اور دیگر سنگین جرائم کو روکا یا کم نہیں کیا جاسکتا اور ہمارے حکمرانوں کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں یوں ہی مجبوری بنی رہیں گی۔ ہمارے وہ سیاست دان جو اقتدار میں آنے سے پہلے حکمرانوں کے پروٹوکول کو خوب تنقید کا نشانہ بناتے اور حکومتی پالیسیوں کو عوام دشمن قرار دیتے ہیں، جب وہ خود عوامی میڈیٹ کے نام پر حکومت میں آجاتے ہیں، تو وہ خود بھی وہی کام کرنے لگتے ہیں جو ان سے پہلے حکمران کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ عوام سے ایسے ایسے وعدے کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو کبھی پورا نہیں کرسکتے مگر اس کے باوجود وہ ہمارے سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھانے سے باز نہیں آتے اور وہ یہ حقیقت بھی بھول جاتے ہیں کہ لفظ بولنے سے پہلے تک انسان کے غلام ہوتے ہیں، بولنے کے بعد انسان اپنے الفاظ کا غلام بن جاتا ہے۔
برطانیہ میں اگر کوئی اپوزیشن لیڈر اس طرح کے بلند بانگ دعوے اور وعدے عوام سے کرے اور اقتدار میں آکر انہیں پورا نہ کرسکے، تو اس کے لیے سوائے استعفا دینے کے کوئی اور راستہ باقی نہ رہے اور اسے عوامی دباؤ کی وجہ سے اپنے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
دراصل یہ برطانوی عوام کا سیاسی شعور ہے جو انہیں کسی ایسے سیاست دان کو اپنے سر پر مسلط نہیں ہونے دیتا جو انہیں سبز باغ دکھائے۔ پاکستان میں ایک بات بڑے تسلسل سے کہی جاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام کو سیاسی شعور دیا۔ معلوم نہیں یہ کیسا سیاسی شعور تھا کہ ان کے بعد عوام نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی کے سربراہ کے طور پر قبول کرلیا اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی کوکھ میں پلنے والے نواز شریف کو تین بار ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔
پاکستان کی سیاست میں شخصیت پرستی کا رجحان بہت خطرناک ہے اور اس وجہ سے ہمارے اکثر بڑے بڑے سیاست دان ایک اعتبار سے سیاسی فرعون بن چکے ہیں۔ درحقیقت جس دن ہمارے ملک کے عوام کا سیاسی شعور بیدار ہوگیا، وہ اس کے بعد کسی دھوکے باز،کرپٹ اور دو نمبر سیاست دان کو اپنے سروں پر مسلط نہیں ہونے دیں گے اور نہ سیاسی جماعتوں کی سربراہی خاندان کے ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہی ہوسکے گی۔یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہوسکے گا جب ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو ہر ایک کے لیے لازمی سمجھا جانے لگے گا۔
گویا تعلیم اور سیاسی شعور لازم و ملزوم ہیں۔
ہمارے حکمرانوں اور اربابِ اختیار کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ملک میں عام لوگوں کو تعلیم و تربیت کے حصول کی آسانیاں فراہم نہ ہونے دی جائیں۔ اسی لیے ہمارے کسی بھی حکمران کی ترجیحات میں تعلیم و تربیت کبھی اوّلین ترجیح نہیں رہی۔ کیوں کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم یا خواندگی کی شرح سو فی صد ہوگئی، تو نہ صرف ان کا سیاسی شعور جاگ جائے گا بلکہ ہمارے نام نہاد سیاست دان انہیں سبز باغ دکھانے اور چکما دینے میں بھی ناکام ہوجائیں گے۔
ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کی سیاسی بقا اسی میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معیاری تعلیم کو عام نہ ہونے دیا جائے۔ عوام کی جہالت کی وجہ سے ہمارے ملک کے دھوکے باز سیاست دانوں کا کام خوب چل رہا ہے اور معلوم نہیں کب تک چلتا رہے گا؟
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔