سرِ دست ایک لطیفہ سنیے جس میں ایک اقلیت کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، مگر مَیں اسے فرضی نام دے دیتا ہوں، تاکہ مذکورہ اقلیت کی تضحیک نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص ہر دوسرے تیسرے روز ایسے راستے سے گزرتا تھا جہاں ایک درخت کی شاخ ایسے بھونڈے انداز میں کاٹی گئی تھی کہ اگر کوئی احتیاط نہ برتتا، تو اس کا سر شاخ سے ضرور جا لگتا۔ مذکورہ شخص ہر بار گزرتے ہوئے شاخ سے ٹکرا کر اور چوٹ کھا کر ہی دم لیتا۔ جب اس کا سر ہر جگہ سے زخمی ہوچکا، تو ایک بار بیوی اس کے ساتھ ہولی کہ ماجرا کیا ہے؟ جیسے ہی وہ کٹی ہوئی شاخ کے قریب پہنچے، تو وہ رونی صورت بنا کر خاتونِ خانہ سے کہنے لگا: ’’یہی ہے وہ شاخ جس سے ہر بار میرا سر ٹکراتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی بیوی کے تن بدن میں گویا آگ سی لگ گئی اور شروع ہوگئی میاں کو کوسنے: ’’ابے بدھو! اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ مجھے دیکھو اس مقام سے گزروں گی اور چوٹ بھی نہیں کھاؤں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خاتون لمبے لمبے ڈگ بھر کر جیسے ہی مذکورہ کٹی ہوئی شاخ تک پہنچی، تو تھوڑی سی گردن جھکائی اور بغیر چوٹ کھائے گزر بھی گئی۔‘‘ میاں یہ دیکھ کر خوش ہوا اور تالیاں بجاتے ہوئے خاتونِ خانہ کو کاپی کرکے چوٹ کھائے بغیر گزر گیا۔
قارئینِ کرام! گذشتہ روز بابا جی نے شام کے وقت برقی پیغام بھیجا کہ آج ٹریفک معمول سے زیادہ ہے اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ مجھے حکم ملا کہ پتا کیا جائے، کیا مسئلہ ہے؟ مَیں نے اولاً اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور ثانیاً انہیں مطمئن کرنے کی غرض سے کہا: ’’حضرت، آج کل سیاح کچھ زیادہ ہی امنڈ آئے ہیں۔ میرے خیال میں وجہ یہی ہوسکتی ہے!‘‘
فون کاٹنے کی دیر تھی کہ ہمدمِ دیرینہ شفیق الاسلام (سوات کے منجھے ہوئے فوٹو گرافر) نے فرمایا: ’’سحابؔ، وجہ مَیں جانتا ہوں۔ پشاور سے ایک پیر صاحب آج سوات تشریف لا رہے تھے، جن کا دعوا ہے کہ وہ شوگر، کینسر،بلڈ پریشر سمیت انسانی جسم میں جتنی بیماریاں ہیں، سب کا ایک ’’دم‘‘ کے ذریعے علاج کر دیتے ہیں۔ موصوف تو نہیں آئے مگر ان سے دم کروانے اور صحت یاب ہونے کی غرض سے خلقت امنڈ آئی جس کی وجہ سے ٹریفک جام رہی۔‘‘
یہ سننا تھا کہ کھوپڑی گھوم گئی۔ خدا کے بندو، ابھی تو ہم اپنے پرانے زخم چاٹ رہے ہیں۔ ابھی تو یہ مندمل بھی نہیں ہوپائے اور چلے نیا زخم کھانے۔ خدا کا واسطہ ہے، بھیڑ بکریاں مت بنیں کہ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں چھڑی ہو، وہ آپ کو ہانکتا پھرے۔ یہ نیا قاری جس قسم کے پروٹوکول کے ساتھ گھومتا گھامتا ہے، یہ بھی کسی ’’عامر‘‘ اور ’’طیب‘‘ جیسے دو بھائیوں کا بنایا ہوا کھیل لگتا ہے۔
جہاں تک میری خام خیالی ہے، اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ یہ ہماری نبض دیکھی جا رہی ہے، یا بقولِ سینئر صحافی نیاز احمد خان: ’’یہ ٹیسٹ فائر ہے!‘‘
قارئین، عرصہ پہلے ایک تحریر پڑھی تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک آدمی ذہنی خلجان کا شکار ہوگیا تھا۔ جب وہ سوکھ کر کانٹا ہوگیا اور گھر والے بھی شہر کے تمام حکیموں سے تھک ہار کر بیٹھ گئے، تو مشورہ کیا گیا کہ کیوں نہ ایک ماہرِ نفسیات کا سہارا لیا جائے۔ القصہ، ماہرِ نفسیات نے علاج کی خاطر مریض کو تنگ جوتا پہننے کا مشورہ دیا۔ اولاً تو خاندان والوں کو ماہرِ نفسیات پر ہنسی آئی مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مریض کو تنگ جوتا دے دیا گیا۔ مریض جیسے ہی تنگ جوتا استعمال کرنے لگا، تو وقت کے ساتھ ساتھ دیگر پریشانیوں پر تنگ جوتے کی وجہ سے تکلیف کی پریشانی غالب آگئی۔ دو تین مہینے بعد جب اس کی حالت کافی بہتر ہوئی، تو وہ خود چل کر ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہنے لگا: ’’ڈاکٹر صاحب! خدا کے واسطے اس تکلیف سے نجات دلائیے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب، نے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر کر جواباً کہا: ’’میرے بھائی، اگر تندرست رہنا چاہتے ہو، تو تنگ جوتا ہی علاج ہے۔‘‘
’’مملکتِ خداداد‘‘ کے آج کل کے حالات پر نظر دوڑائیں، تو صورتِ حال واضح ہے۔ بے روزگاری انتہا پر ہے۔ عام آدمی فاقوں پر مجبور ہے۔ نیازی سرکار ’’چور مارکہ چورن‘‘ بیچ بیچ کر اس قوم نما ہجوم کا ’’تنقیہ‘‘ کرچکی۔ ایسے میں اگر اس ہجوم سے چند کو اُٹھوا کر ان گلے نہ کاٹے جائیں، معروف شخصیات، ججوں، وکیلوں اور اداکاروں کی ویڈیوز نہ لیک کی جائیں اور ایک ’’غیر معروف قاری‘‘ جملہ انسانی امراض کا علاج دم کرکے شفا دینے کا دعوا نہ کرے، تو اس سے بہترین تنگ جوتا اور کون سا ہوسکتا ہے؟
قارئینِ کرام! خدا کا واسطہ ہے، ہم انسان ہیں، اشرف المخلوقات ہیں، کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ کوئی بھی چھڑی ہاتھ میں لے کر جس طرف ہانکنا چاہے، ہانکتا پھرے!
جاتے جاتے یہی کہوں گا کہ تحریر کے آغاز میں بیان کیے گئے لطیفے میں میاں کے کردار پر تو ہم حضرات (الحمد للہ) پورا اترتے ہیں، لیکن اے کاش، کوئی خاتون ایسی بھی پیدا ہو، جو ہمیں چوٹ نہ کھانے کا گُر سکھا جائے۔
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔