5 فروری کو تمام نیوز چینلوں پر یومِ کشمیر کی کوریج جاری تھی۔ ملک بھر میں سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر نجی تعلیمی اداروں اور تنظیموں نے بھارت کے خلاف ریلیاں نکالیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر جو اَب باقاعدہ ہندوستان کا حصہ ہے، کی آزادی کے لیے حکومتِ پاکستان، اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر آواز اٹھا رہی ہے۔ کشمیر کا جو نقشہ ہمیں پیش کیا جارہا ہے، اس کی میرا سوشل مےڈیا کا ایک کشمیری دوست تردید کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’علاحد گی پسندی اور بھارتی فوج کے جھڑپوں کی وجہ سے ہزاروں کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ اکثر اوقات ایسے افراد کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ ہڑتالوں کے دوران میں فوج اور سیاسی کارکنوں کے درمیان چھڑپیں ہوتی ہیں، لیکن باقی زندگی معمول کے مطابق ہے۔ لوگ اپنی نوکریاں اور کاروبار معمول کے مطابق کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی حکومت اور مذہبی و سیاسی جماعتیں ہر وقت تو کشمیر کا ذکر کرتی ہیں لیکن چین میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر ابھی تک کسی نے بات کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ یہ تو پشتو کی ضرب المثل ’’اوبہ زی زی، پہ کمزوری زی ماتیگی‘‘ کے مصداق بات ہوئی۔‘‘
اب آتے ہیں چین کے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کی جانب۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دس لاکھ سے زیادہ مسلمان قید خانوں میں ہیں، جو مسلمانوں کے لیے خصوی طور پر بنائے گئے ہیں۔ مردوں کو داڑھی رکھنے، مسجد جانے اور عبادت پر پابندی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں چین کے مسلمان لاپتا ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔ چین کی مسلمان خواتین کا زبردستی آپریشن کرایا جاتا ہے جس سے بچوں کو جنم دینے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو یتیم خانوں اور بعد میں بے اولاد جوڑوں کو دے دیا جاتا ہے، تاکہ وہ مسلمان نہ رہیں۔
قارئین، چین کی حکومت چین میں مسلم اقلیت ’’ایغور‘‘ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک تصدیق شدہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانونی رائے کے مطابق ’’ہم نے جو شواہد دیکھے ہیں، ان کی بنیاد پرہماری رائے میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ سنکیانگ میں ایغوروں کے خلاف چینی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات دراصل انسانیت کے خلاف جرائم اور اس کمیونٹی کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔‘‘
100 صفحات پر مشتمل اس دستاویز کو جسے ایلیسن میکڈونلڈ کیوسی سمیت لندن کے ایسیکس کورٹ چیمبرز کے سینئر بیرسٹرز نے مرتب کیا ہے۔ سنکیانگ میں چین کے اقدامات کے متعلق یہ برطانیہ میں ہونے والی پہلی باقاعدہ قانونی سرگرمی سمجھی جا رہی ہے۔ یہ رائے اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا قانونی راستہ ہے جس کی برطانوی جج اس صورت میں پیروی کریں گے، اگر پارلیمنٹ کسی نئی قانون سازی پر اتفاق رائے کرتے ہوئے ہائیکورٹ کو نسل کشی کے معاملات پر فیصلہ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ تمام جماعتوں کے اراکینِ پارلیمنٹ امید کر رہے ہیں کہ وہ اسے ہاؤس آف کامنز سے پاس کروالیں گے۔ یہ قانونی رائے حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں، تعلیمی سکالرز، خیراتی اداروں اور میڈیا سے چھے ماہ تک عوامی طور پر دستیاب شواہد کے ایک مکمل قانونی جائزے پر مبنی ہے۔نظربند افراد کے مطابق انہیں انتظامیہ کی جانب سے بجلی کے جھٹکوں کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ طویل دورانیہ تک دباؤ کی پوزیشن پر رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مارا پیٹا جاتا ہے۔ کھانے سے محروم رکھا جاتا ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھی جاتی ہے ۔
اس کیمپ میں نو ماہ گزارنے والی ایغور مسلم خاتون ’’تورسنے زیائدین‘‘ جو رہائی کے بعد چین سے فرار ہوکر امریکہ پہنچ گئی ہے، نے وہاں کے مےڈیا کو بتایا کہ میرا شوہر اور بچے اب بھی ان جیلوں میں ہیں۔ ان میں موجود خواتین سے پولیس اہلکار روزانہ جنسی زیادتی کرتے ہیں اور مجھے بھی پانچ بار زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا ہے۔
قارئین، اب واپس آتے ہیں۔ پاکستان میں تو کشمیر کے مسئلہ پر روزانہ بات ہوتی ہے۔ پاکستان کی حکومت، مذہبی و سیاسی جماعتیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے ٹھیکیدار ہیں، لیکن چین کے مسلمانوں کے لیے آواز برطانیہ کے ’’کافروں‘‘ نے اٹھائی۔ اس رپورٹ کے بعد اب میں توقع کرتا ہوں کہ پاکستان، چین کے مسلمانوں کی نسل کشی، ان پر مظالم اور دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کی جیل میں بندش کے خلاف آواز اٹھائے گا۔ چین کے سفیر کو وزارتِ خارجہ طلب کرکے اس سے سخت الفاظ میں مذمت کی جائے گی اور اگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، تو پاکستان جو کلمہ کے نام پر بنایا گیا تھا، چین سے سفارتی تعلقات ختم کرکے سی پیک کامعاہدہ ختم کرے گا۔ سعودی عرب کا قرضہ چکانے کے لیے چین سے جو اڑھائی ارب ڈالر لیا تھا، وہ اس کے منھ پر دے مارے گا۔ اقوامِ متحدہ میں اس اہم مسئلے کو بھی ضرور اٹھائے گا۔ 5فروری کی طرح چین کے مسلمانوں کی نسل کشی اور مظالم کے خلاف ایک دن مقرر کیا جائے گا۔ اس دن کو بھی ’’یومِ کشمیر‘‘ کی طرح منایا جائے گا اور کشمیر کمیٹی کی طرح ’’ایغور کمیٹی‘‘ بھی بنائی جائے گی۔
باقی بات رہی مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کی، تو اب اس رپورٹ کے بعد تو ان جماعتوں کو گلی گلی کوچے کوچے احتجاج کرنا چاہیے، دھرنے دینے چاہئیں اور جب تک چین کے مسلمانوں پر ظلم کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک انہیں نہیں اٹھنا چاہیے۔ پاکستان کے حکمرانوں، مذہبی اور سیاسی جماعتوں اور ملک کے تمام مسلمانوں کی وجہ سے جب ایغور کے مسلمانوں پر ظلم ختم ہوگا، تو اس کارِ خیر پر یقینا یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور اس دنیا میں بھی اللہ تعالا ان پر رحمتوں کی بارش کرے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ کے بعد حکومت اور ملک کے مسلمان کب چین کے خلاف احتجاج کا اعلان کرتے ہیں!
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔