کسی بھی جمہوی ملک میں جہاں تحریر و تقریر کی آزادی ہو، جہاں سیاست آزاد ہو اور ایک انتخابی میدان سجایا جائے، وہاں پر مخالف فریق پر تنقید ایک بالکل عام سی مشق سمجھی جاتی ہے۔ عین انتخابات کے دوران میں یہ نظریاتی مخالفت کسی حد تک ذاتی حملوں میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ’’پاؤر پالیٹکس‘‘ میں یہ کوئی اچھوتی یا ایک حد تک قابلِ مذمت بات نہیں سمجھی جاتی۔ ایسا تھوڑا بہت ہر جمہوری ملک خصوصاً جدید جمہوریت کا بادشاہ امریکہ ہو یا مادرِ جمہوریت کہلانے والا برطانیہ۔ ہر جگہ کسی نہ کسی انداز میں ایسا ہوتا ہے۔
لیکن عمومی طور پر اس کی کچھ حدود و قیود کا ایک غیر متعین شدہ تعین ضرور ہوتا ہے۔ اگر تلخی کچھ حدود کو کراس کر جائے، تو بعد انتخابات ایک دوسرے سے معافی تلافی ہو جاتی ہے۔
لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی سیاسی حریف کی کردار کشی سیاسی ضرورت سمجھ کر کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کردار کشی کی بانی بدقسمتی سے پاکستان میں ایک دین کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت میری مراد ’’جماعت اسلامی‘‘ سے ہے، نے شروع کی۔ یہ پریکٹس انہوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے شروع کر دی تھی۔ بابائے قوم بارے انہوں نے شروع دن ہی سے بہت حد تک قابلِ اعتراض زبان کا اجرا کیا، لیکن اس کی اصل آب یاری بے شک آمرانہ دورِ حکومت میں ہوئی جس کو معراج ’’ضیاء الحق‘‘ نے دی۔
اسی دوران میں سیاسی مذاق اور چٹکلوں کا آغاز بہرحال ذوالفقار علی بھٹو نے کیا جو بذاتِ خود بے شک قابلِ مذمت تھا لیکن یہ سنجیدہ کردار کشی نہ تھی۔ سیاسی گند کو اول عروج اس وقت ملا جب محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی ختم کر کے ملک واپس آئیں، تو تب ’’ضیائی ٹولہُُ جس میں مرکزئی کردار جماعتِ اسلامی کا تھا اور ساتھ میں میاں نواز شریف جو انتخابی سیاست میں نوآورد تھے اور ان کے ساتھ شیخ رشید اور سعد رفیق جیسے نوجوان مل گئے۔ خاص کر شیخ رشید تو تمام اخلاقی حدود کراس کر گئے تھے اور ان کا یہ رویہ بہت حد تک اب اس عمر میں بھی باقی ہے۔ سو یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کی تحریک پر تمام حدود و قیود کراس کرتے رہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی ذاتی کردار کشی میں مصروف ہوگئے۔ بی بی شہید کی فوٹو شاپ کی مدد سے تصاویر بناکر باقاعدہ جہازوں سے شمالی پنجاب میں گرائی گئیں۔ اس گالی گلوچ کی اتنی شدت تھی کہ راقم نے ایک دفعہ خود بیگم نصرت بھٹو کو باقاعدہ روتے ہوئے مولانا سمیع الحق کو شکوہ کرتے دیکھا، لیکن جب جنابِ عمران خان نے سیاسی اننگز کا آغاز کیا، تو ان عناصر کا نشانہ عمران خان بنے، لیکن اس وقت سیاست کا میدان کسی حد تک بدل چکا تھا۔ کیوں کہ پی پی کی ایک مجبوری یہ تھی کہ ان کی قائد ایک نوجوان خاتون تھی اور وہ کوشش کرتے تھے کہ اس حرکت سے دور رہیں۔ عمران خان کی انٹری سے دوسری طرف سے جوابی وار شروع ہوگیا اور جن لوگوں نے سنہ 1997ء کے الیکشن کا مشاہدہ کیا ہو، تو وہ بتا سکتے ہیں کہ کتنا گند پڑا۔ اُس وقت شرفا نے گھر میں اخبارات کا داخلہ بند کر دیا تھا۔
پھر مشرف کے مارشل لا دور میں جب ن لیگ کسی حد تک میچور ہوگئی، تو یہ سیاسی کردار کشی بہت حد کم ہوگئی لیکن یہ وقتی خاموشی ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ جب سنہ 2011ء کو مینارِ پاکستان کے جلسہ سے تحریکِ انصاف کو عروج حاصل ہوا، تو ایک انتہائی عجیب و غریب کلچر متعارف ہوا،اور وہ یہ تھا کہ اول توقائدین کی کردار کشی ہوتی، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، الطاف حسین یا اسفند یار ولی کی ذاتی و اخلاقی کمزوریوں پر بحث کی جاتی، یا ان کا ذاتی کردار موضوعِ سیاست بنتا، لیکن اب اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوگیا۔
قائدین کی کردار کشی تو اپنی جگہ رہی، لیکن تحریکِ انصاف کے نوجوانوں کے جتھے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع ہو گئے۔ اوپر سے اسی دوران میں سوشل میڈیا کا عذاب آگیا۔
اب آپ کو کسی اخبار، کسی چینل یا کسی اشتہار کی محتاجی بالکل نہ رہی۔ اب ’’فیس بک‘‘، ’’ٹوئٹر‘‘ پھر ’’انسٹاگرام‘‘، ’’واٹس اپ‘‘ اور اب ’’ٹک ٹاک‘‘ اور اوپر سے ’’فوٹو شاپ‘‘ اور جعلی ’’ڈبنگ‘‘ کی آسان سہولت نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ سو اب ہر شخص مدبر بن گیا ہے اور ہر بندہ صحافی۔ دانشوروں، کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی اَن گنت تعداد پیدا ہوگئی، جس کا جو دل کیا، وہ لکھنا اور لگانا شروع ہوگیا۔ سو تحریکِ انصاف کے نوجوان جتھوں نے باقاعدہ پروفیشنل انداز میں ہر اُس شخص کو نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ جس نے ہلکی سی بھی ان کی قیادت یا نظریہ بارے تنقید کا جرم کیا۔ ان کے تیروں کا رُخ عدلیہ، صحافیوں، اساتذہ، سول سوسائٹی کے متحرک کارکنان، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ یا عام سے مخالف جماعتوں کے ووٹر ہوں، کی طرف مکمل ہوگیا۔ پنجابی کی ایک مشہور مثال کہ ’’ہلیا نہیں تے سلیا نہیں‘‘ یعنی ’’ہلکا سے ہلا نہیں، تو اس کو ٹھوک دو‘‘ کے مصداق انصافین نوجوان شروع ہوگئے۔ ماں بہن کی گندی گالیاں جس کا راقم بھی اکثر شکار رہتا ہے، دینا ان واسطے عام سی بات ہوگئی۔ اب شاید قانونِ قدرت کے تحت جب ن لیگ کی قیادت ایک خاتون کے پاس آئی، تو انہوں نے بے نظیر کی کردار کشی کو مع سود واپس کردیا۔
دوسرا یہ ظلم ہوا کہ پہلے ایسی حرکات پر قیادت کسی حد تک شرمندہ ہوتی تھی۔ خاص کر عام کارکنان یا معاشرے کے دوسرے غیر سیاسی عناصر بارے اور کارکنان کو ایسی حرکات سے منع کیا جاتا تھا، لیکن تحریکِ انصاف نے باقاعدہ اس رویہ کی حوصلہ افزائی کی، شاباش دی۔ سو یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سیاست گالی گلوچ اور ذاتی کردار کشی کا محور و مرکز بن کر رہ گئی ہے۔
لیکن اب یہ بات ہماری سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس، اساتذہ، مذہبی سکالر، علمائے دین، اہلِ صحافت اور خاص کر سیاسی قائدین واسطے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم آخر کب تک اس اخلاقی پستی اور ذہنی گھراوٹ کا شکار ہوتے رہیں گے؟
میرا یہ خیال ہے کہ اب ہماری تمام قوم کو بنا کسی سیاسی، مسلکی یا علاقائی تعصب کے آگے آنا ہوگا اور یک نکاتی ایجنڈا طے کرنا ہوگا کہ اب ہم کسی بھی صورت کسی بھی حالات میں اس گالی گلوچ پر خاموش نہیں رہ سکتے اور اب اگر کسی بھی طرف سے خواہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف ہو، خواہ مسلم لیگ ن، خواہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو، خواہ جماعتِ اسلامی ہو یا ایم کیو ایم وغیرہ، القصہ کوئی بھی ہو، جس کی طرف سے کوئی ہلکی سی بھی بدتمیزی وقوع پذیر ہوگی، تو تمام معاشرہ اس کے خلاف متحد ہوگا۔ ایسے عناصر کی نہ صرف شدید مذمت کی جائے گی بلکہ ان کے خلاف تمام قانونی کارروائیاں کی جائیں گی، بلکہ اگر بار بار کی تنبیہ کے باجود بھی یہ عناصر باز نہ آئیں، تو ان کا باقاعدہ معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ تبھی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ شاید ہم اپنی سیاست کو گندگی سے بچا سکیں اور معاشرے میں ایک صاف ستھرا مہذب تنقیدی رویہ پروان چڑھا سکیں۔
اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو یہ یاد رکھیں کہ ہمارے شرفا خاص کر شریف خاندانوں کی خواتین کم از کم سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گی اور یہ ہمارے واسطے ایک بہت بڑا معاشرتی المیہ ہوگا۔ پھر جب سیاست گالی گلوچ والے بدتمیزوں کے حوالے ہو جائے گی، تو پھر اس کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکے گا۔
سو میری اپیل ہے اپنی تمام سیاسی قیادت سے کہ وہ ان بدتمیز عناصر کو لگام ڈالیں۔ اس سے آپ کا کوئی سیاسی فائدہ تو نہ ہوگا، شاید لیکن آپ کے نامۂ اعمال میں نحوست ضرور درج ہو جائے گی اور تاریخ آپ کو بے شک ایک غیر مہذب اور بدتمیز کردار کے طور پر یاد رکھے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ مَیں معاشرے کے صاحب الرائے عناصر خاص کر مصنفین، شعرائے کرام، کالم نگاروں، صحافیوں اور خاص کر علمائے دین اور گدی نشین بزرگوں سے بھی یہ جائز توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس مکروہ عمل کو سنجیدہ لیں اور اس بے ہودہ مہم جوئی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ کیوں کہ سیاسی جماعتیں اور قائدین تو آتے جاتے ہیں، لیکن ہمارے ملک کی ثقافت اور معاشرے کو اسی طرح اِن شاءﷲ قائم رہنا ہے اور ہم اس معاشرتی تنزلی کا رسک نہیں لے سکتے۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو اس برائی سے تباہ نہیں کرسکتے۔ہم نے کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کو نہیں بچانا، نہ یہ ہماری ذمہ داری ہی ہے بلکہ ہم نے اپنی عظیم دینی تعلیمات، خوب صورت ثقافت اور اعلا اخلاقی اقدار کا تحفظ ہر صورت کرنا ہے۔
امید ہے میری بات پر کچھ لوگ ضرور غور کریں گے۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔