اگلے چھے ماہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی تاریخ میں فیصلہ کن نظر آتے ہیں۔
مارچ میں سینیٹ کا الیکشن مکمل ہوجائے گا۔ غالب امکان ہے کہ سینیٹ میں حکمران پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادیوں کو عددی برتری حاصل ہوجائے۔ یاد رہے کہ اس مرتبہ مارچ میں 52 سینیٹرز ریٹائرڈ ہوجائیں گے، جن میں کئی نامی گرامی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق، پی پی پی کی شیری رحمان، سلیم مانڈی والا، فاروق نائیک، رحمان ملک اور نون لیگ کے راجہ محمد ظفر الحق، پرویز رشید اور مشاہداللہ خان بھی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے سات سینیٹرز ریٹائر ہوں گے، جن کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ پی پی پی کے بھی سات سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے جن کا تعلق سندھ سے ہے۔سب سے زیادہ نون لیگ کے سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے جن کی تعداد پندرہ ہے۔ ان میں سے 13 کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس منظر نامہ سب سے زیادہ نقصان نون لیگ کا ہوتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں گذشتہ الیکشن میں نون لیگ کو نہ صرف اکثریت حاصل تھی، بلکہ بھاری اکثریت حاصل تھی۔
بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے اس کے لیے اس مرتبہ سینیٹ کی کوئی نشست حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ یوں پی ٹی آئی اور اس کے حلیفوں کو سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں کوئی قابلِ ذکر مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس سیاسی ہنگامہ کے پہلو بہ پہلو متعدد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونے والے ہیں۔ سندھ میں ہونے والے ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب کا میدان پی پی پی نے مار لیا ہے۔
نون لیگ کے احسن اقبال کہتے ہیں کہ اگر ہم ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوگئے، تو پھر لانگ مارچ کی ضرورت نہیں۔ غالباً وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
پی پی پی کی لیڈر شپ کی تجویز ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا آغاز پنجاب اسمبلی سے کیا جائے۔
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں مقامی حکومتوں یا بلدیاتی الیکشن کا معرکہ بھی برپا ہوا چاہتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے مقابلے میں زیادہ گہما گہمی ہوتی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں امیدوار میدان میں اُترتے ہیں۔ سیاست، حقیقت میں گھر گھر کا موضوعِ بحث بن جاتی ہے۔ برادریاں سیاسی جماعتوں سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرتی ہیں ان انتخابات میں۔ پنجاب کے بعض علاقوں میں سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ، خاندانوں اور برادریوں کے اندر پایا جانے والے غلبہ کا رجحان دیگر تمام عوامل کو مات دے دیتا ہے۔
حکومت بلدیاتی اداروں کو زیادہ بااختیار بنانے اور انہیں مالی وسائل بھی فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی بھی جاری ہے۔ پاکستان کی سیاست کا اصل مرکز اور میدان پنجاب ہی ہوتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن کا عمل شروع ہوگا، تو کوئی بھی جماعت اس سے باہر ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکے گی۔ مقامی سیاست دان اور سیاسی کارکن اپنے علاقے کی گدی کسی دوسرے کے حوالے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ چناں چہ امکان ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بھرپور معرکہ آرائی ہوگی۔
اگلے چھے ماہ تک پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں کے لیے مقامی سطح کے لیڈر اور ان کے کارکن دستیاب نہ ہوں گے۔ بلدیاتی الیکشن اس مرتبہ ملکی سیاست اور الیکشن کے نظام کی جہت ہی بدل دیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان ایک عرصے سے قوم کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کا کام مقامی سطح کے ترقیاتی مسائل کا حل یا نوکریوں کے لیے سفارشیں کرنا نہیں، بلکہ قانون سازی ہے۔ اسی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومتوں نے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز بھی روکے ہیں۔
بلدیاتی الیکشن کا سلسلہ چلنے سے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی تک بھی مقامی سطح کی سیاست کو ترجیح دینا شروع ہوجاتے ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کارروائیوں کے ریکارڈ کی پڑتال کی جائے، تو واضح نظر آتا ہے کہ 80 فی صد ارکان کسی بحث میں حصہ لیتے ہیں، اور نہ پارلیمانی کمیٹیوں کی کارروائی سے انہیں کوئی دلچسپی ہے اور نہ مہارت۔ بغلوں میں فائلیں دبائے وہ اسلام آباد وارد ہوتے ہیں۔ وزرائے کرام کی مدد سے اپنے منظورِ نظر افراد کے جائز اور ناجائز مسائل حل کرتے ہیں، تاکہ اگلے الیکشن میں ان کاووٹ بینک پکا رہے۔
پی ڈی ایم کو بلدیاتی الیکشن سے سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا کہ آزاد کشمیر کا الیکشن اسے اپنی طرف کھینچ لے گا، جہاں جون یا جولائی میں اسمبلی کے الیکشن ہونے ہیں۔ اگرچہ وہاں اس وقت نون لیگ کی حکومت ہے۔ اسمبلی میں اسے دو تہائی ارکان کی اکثریت حاصل ہے، لیکن پی ٹی آئی کی صفوں میں تیزی سے الیکٹ ایبلز داخل ہو رہے ہیں۔ عوام کا رجحان بھی عمران خان کی طرف ہے۔ خود مسلم لیگ نون نے جو بیانیہ قومی سطح پر متعارف کرایا ہے، اس کی آزاد کشمیر میں کوئی قابلِ ذکر پذیرائی نہیں۔
لائن آف کنٹرول پر ہونے والی مسلسل فائرنگ اور کشمیر کے حالات میں یہاں کے لوگ اداروں یا وفاقی حکومت کے مغائر کسی بیانیہ کو قبول نہیں کرتے، بلکہ اپنے آپ کو عمومی طور پر اسلام آباد میں قائم حکومت سے ہم آہنگ رکھتے ہیں، تاکہ سیاسی استحکام بھی رہے اور وفاقی موصولات میں سے حصہ بقدرِ جثہ بھی دستیاب رہے۔
مولانا فضل الرحمان نے بھی اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں پلٹا کھایا اور کہا کہ ان کی لڑائی اداروں کے ساتھ نہیں، پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ حالاں کہ گذشتہ ڈیڑھ برس میں ان کا مؤقف اس کے برعکس تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی لڑائی حکومت کی پشت پناہی کرنے والوں سے ہے ۔
دیر آئد درست آئد!
مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لیتے تو ’’نااہل لوگوں‘‘ سے سینیٹ بھر جاتا۔ مولانا بھی کمال کے سیاست دان ہیں۔ ان کی شعلہ بیانی نے سیاسی الاؤ خوب دھکایا۔ درجۂ حرارت اس قدر بڑھایا کہ ان کے اتحادیوں کو اپنا سفینہ ڈوبتا محسوس ہوتا، تو انہوں نے مولانا کی مشکیں کسیں۔ وہ لانگ مارچ کے قصہ اور وزیراعظم کا استعفا بھول گئے اور اپنے ہی دوستوں سے گلے شکوہ کرنے لگے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کا اب ایک راستہ بچا ہے، اور وہ ہے الیکشن 2023ء۔ سیاسی جماعتوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے۔
الیکشن کو شفاف اور قابلِ قبول بنانے کے لیے الیکشن کے قوانین میں ضروری ترامیم کرانے کی مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ حکومت کے خلاف آگ بھڑکانے اور عوامی جذبات کو آواز دینے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لوگ ان کے دورِ اقتدار کو بھی اچھی طرح بھگت چکے ہیں۔ دودھ اور شہد کی جو نہریں پی پی پی اور نون لیگ کے دور میں بہتی تھیں، وہ خوب یاد ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون اور پی پی کے دورِ حکومت پر اُردو کا یہ مقولہ صادق آتاہے کہ ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں، مڑمڑ اپنوں میں۔‘‘
تلخ حقیقت یہ ہے کہ رائے عامہ کو پی ڈی ایم کے بیانیہ پر اعتماد نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ جمہوریت، شہری آزادیوں اور عوام کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کھال بچانے کے لیے لڑی جارہی ہے۔
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔