نئے پاکستان میں پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے۔ تاجر حضرات معاشی بے یقینی کی صورتِ حال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ملک کے 85 فیصد متوسط طبقے کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں۔ بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں، مگر ان حالات میں بھی حکمران طبقہ عملی اقدامات کی بجائے محض اپنی ضد پر قائم ہے۔ ابھی چند روز قبل بجلی کے نرخوں میں 2 روپے فی یونٹ اضافے کی کسک کم نہیں ہوئی تھی کہ اوگرا نے یکم فروری سے پٹرول پونے تین روپے لیٹر مزید مہنگا کردیا جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت اس وقت کسی حد تک مستحکم ہے۔ عالمی منڈی میں بھی خام تیل کی قیمت اوسطاً 55 ڈالر فی بیرل پربرقرار ہے۔ اس لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کسی طور پر منطقی و معاشی اعتبار سے درست نہیں۔
دوسری جانب پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں گیس 250 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مہنگی کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس اضافہ کے بعد گیس کی نئی قیمت 881 روپے 40 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر ہوگئی ہے۔
ایندھن کے مختلف ذرائع کے نرخوں میں اضافہ عوام کو براہِ راست اور بالواسطہ، دونوں حوالوں سے متاثر کرتا ہے اور مہنگائی کا پہلے سے بلند گراف مزید بلند ہو جاتا ہے۔ کورونا کے اس دور میں جب کہ آمدنیوں میں اضافہ متوقع نہیں، یہ اضافی بوجھ عوام کی مالی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اقتدار میں آنے سے قبل تحریکِ انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے اور یہ بھی کہتے کہ ان کے دورِ حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے۔ ان کے یہ دعوے سن کر پاکستان کے عوام کو یوں لگا جیسے یہی ان کے مسیحا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لوگ ہیں، مگر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے سب سے زیادہ عوام کو مایوس کیا۔ کیوں کہ جس دن سے پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آرہا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دکان دار کے لیے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کے لیے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کے لیے تجارت کرنا مشکل اور کسان کے لیے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا ، گھی ، چینی سمیت اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بحیثیتِ قوم ہم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔ ہر آنے والا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے، لیکن موجودہ حکمران نئے طریقوں اور انداز سے قوم کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کو ’’چور‘‘ کہنے والے موجودہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ جاتے ہوئے سب لوٹ کر لے گئے۔خزانہ ایسا خالی کیاکہ جب ہم نے اقتدار سنبھال کر دیکھا تو خزانے میں کچھ بھی نہ تھا۔ سرکاری اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں تھیں۔ کرپشن کا ایسا بازار لگایا تھا کہ دو اڑھائی سال سے ہم سراغ لگاتے لگاتے تھک گئے، لیکن سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہو رہی ہیں۔ الغرض، اس طرح کی بے شمار باتیں کی جا رہی ہیں لیکن حسبِ سابق یا حسبِ روایت قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لیے ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھایا گیا۔
آج تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں بھی کرپشن ہورہی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ بیورو کریٹس اور سرکاری افسران سے لے کر کلرک تک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تعاون نہیں کررہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ سابقہ حکمرانوں کے منظورِ نظر ہیں۔ چیف سیکرٹری، آئی جی سمیت اعلا سطحی افسران کو آئے روز تبدیل کیا جارہا ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ مطلوبہ نتائج پھر بھی حاصل نہیں ہوپا رہے؟ بیورو کریسی ہو یا پولیس کے اعلا افسران یہ حکومت کے احکامات پر قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس لیے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے اداروں اور افراد پر الزام لگانا مناسب نہیں، نہ یہ مسائل کا حل ہی ہے ۔
موجودہ حکمران جو کل تک کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45 روپے لیٹر زیادہ ہے، اب وہ عوام پر براہِ راست اثر انداز ہونے والے حکومتی ٹیکسوں میں پے در پے اضافہ کررہے ہیں جس پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی اور گرانی کا سونامی ہی لانا تھا، تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے بہتر تھی۔
پاکستانی قوم گذشتہ 73 سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر، تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ آج قوم کا ہر فرد ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے جب کہ یہاں محنت کش کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔
پاکستان میں بد سے بدترین حالات میں جمہوری حکومتیں وجود میں آتی رہی ہیں، لیکن کسی حکومت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابھی وہ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتی اور جلد ہی عوام اس کی کارکردگی دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے، اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے۔ کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہوجاتا ہے۔ یوں اڑھائی سالہ کے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ کچھ نہیں۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔