کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے سامان اور خدمات کی قیمتوں میں طویل مدتی اضافہ افراطِ زر (Inflation)کہلاتا ہے۔
افراطِ زر کی پریشانی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہمیں غیر متوقع مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو لوگوں کی آمدنی میں اضافے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اشیا کی قیمت بڑھنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔
٭ ایک یہ کہ اشیا کی تیاری کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ مطلب خام مال کی قیمت زیادہ ہوئی یا پھر اُجرت زیادہ لگی، تو قیمت بھی بڑھ جائے گی۔
٭ دوسری وجہ محدودیت ہے، یعنی مارکیٹ میں مال کم ہے، لیکن خریدا ر زیادہ ہیں۔ کچھ گاہک زیادہ پیسا دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں 2018ء تک افراطِ زر کی شرح 3 سے 5 فی صد تھی، جو اَب بڑھ کر 9 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ’’فوڈ انفلیشن‘‘ یعنی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔
پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے سرکاری ادارے ’’وفاقی ادارہ شماریات‘‘ نے ستمبر کے مہینے مہنگائی کی شرح میں 9.04 فی صد اضافے کا اعلان کیا تھا، جو اگست کے مہینے میں 8.02 فی صد تھی۔
پاکستان میں مالی سال 2018ء اور 2019ء میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 2019ء اور 2020ء کے اختتام پر 10.7 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ 2021ء میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 4.5 فی صد سے بڑھ کر 5.1 فی صد ہونے کا خدشہ ہے۔
افراطِ زر کی ایک بڑی وجہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہے۔ اگست کے اختتامی دنوں میں ایک ڈالر کی قیمت 168روپے 43 پیسے تھی، جو اَب بہتر ہوکر 158 روپے 91 پیسے ہوچکی ہے۔ فروری میں ڈالر کی قیمت 154روپے کے لگ بھگ تھی۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے ایک جانب ملکی درآمدات کو مہنگا کیا، تو دوسری جانب اس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی بہت اضافہ دیکھنے میں آیا۔
(’’جہانگیر ورلڈ ٹائمز‘‘، ماہِ جنوری کے شمارہ کے صفحہ نمبر 47 سے انتخاب)